افسوس کہ جس نے”اس بازار میں”جا کر عصمت دریدگی کا نوحہ لکھا،اس کے فرزند ارجمند پر ایک خاتون کو ہراساں کرنے کا الزام عائد ہوا ہے.
افسوس کہ جس نے نشاط خانوں کے مہربلب آبگینوں کو آواز بخشی اس کے صاحبزادے کو سرکاری ٹی وی کے دفتر میں عورتوں سے جسمانی مذاق کا قصور وار ٹھہرایا جا رہا ہے.
افسوس کہ جس نے شرعی برہمنوں اور سیاسی اوباشوں کے بت توڑے ،حرم فروش فقیہوں کو بے نقاب کیا اس کے بیٹے کا عہدہ سیاسی تعلق کے مرہون منت بتایا جا رہا ہے.
جس نے صحافت کو عبادت کا درجہ دیا ،زبان و قلم کی سچائی سے افراسیابی گنبد گرائے،اس کے وارث پر صحافتی اخلاقیات کی خلاف ورزی کا الزام ہے.
جس نے اپنے آپ کو قلم کی آلودگی کے ساتھ ساتھ نفس کی آلودگی سے بھی بچائے رکھا،جس نے وصیت کی تھی کہ مجھے مرنے کے بعد وہ شخص غسل دے جس نے منبر و مہراب کی عظمت کو داغدار نہ کیا ہو،جس کی غیرت نے کبھی کفن نہ پہنا، میرا قلم اس شخص کو دیا جائے جس کو لہو سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہو،اور مجھے وہاں دفن کیا جائے جہاں گورکن قبر کی مٹی فروخت نہ کرتے ہوں،افسوس اس عظیم شخص کاگل سر سبد اخلاقی جنگ ہارتا نظر آتا ہے.