انسانوں کی بستی

انسانوں کی بستی کا ’’ قبیلۂ قاتلاں ‘‘ تحریر: محمد امجد بٹ

آخر انسانی دماغ کی بھی ایک حد ہوتی ہے آپ سیاپا بھی ایک حد تک کرسکتے ہیں بچہ ماں کو کتنا پیارا ہو تا ہے بچہ مر جائے تو ماں بین کرتی ہے روتی ہے چلاتی ہے لیکن کتنی دیر؟ ؟؟
ایک گھنٹہ، ایک دن یا ایک ہفتہ ،آخر بین چیخوں ، چینخیں سسکیوں اور سسکیاں آہوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں دل مضطرب کو چین آجاتا ہے ایک ہلکی سی کسک، درد کی ایک تھوڑی سی آہٹ باقی رہ جاتی ہے’’ مندری جی‘‘ کو بتایا کہ کالم نویسوں کے کالم بھی ایک بین ایک چیخ ہوتے ہیں یہ بین یہ چیخ بتاتے ہیں کہ لوگو تمھارے ساتھ ظلم ہورہا ہے تم لٹ گئے ہو ، تم برباد ہو گئے ہو ، اس چیخ اس بین پر لوگ متوجہ ہو جائیں اور اس چیخ ، اس بین پر اگر ظالم ٹھٹھک کر رہ جائے تو کالم اور کالم نویس کا فرض پورا ہو گیا لیکن اگر ظالم ان چیخوں ان بینوں کے باوجود ظلم کرتا رہے ایک لمحے کیلئے اس کا ہاتھ نہ رکے اس کے ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ تک نہ آئے تو وہ چیخ ، وہ بین فضائی آلودگی کے سوا کچھ نہیں ہوتے، لوگ بھی اگر اس چیخ اور بین کو معمولی سمجھیں اور ایک روٹین کے درجہ دے دیں تو بھی یہ چیخیں یہ بین آوازوں کے جنگل میں ایک جھاڑی ، سوکھی سڑی اور کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ، چوکیدار کے جاگتے رہو کے اعلان سے اگرچور گھبرائیں اور نہ اہل محلہ کی آنکھ کھلے تو چوکیدار کیا کرئے؟؟؟؟؟ ۔ اسکی پتلیوں میں بھی نیند ہچکولے گی اس کا ضمیر بھی جمائیاں لینے لگے گاْ
یقین جانیئے !!کہ جب لکھنے بیٹھا ہوں تو خود سے سوال کرتا ہوں کس کے لئے لکھ رہا ہوں؟؟؟ ان لوگوں کیلئے جو غلامی سہنے کی عادت ، زیادتی برداشت کرنے کی خو جن کی نس نس میں بس چکی ہے جو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی داستان کو بھی ایک فسانہ سمجھ کر پڑھتے ہیں جو اپنے قتل کے گواہ پر ہنستے ہیں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ بیل کو لیکچر کے ذریعے چیتا نہیں بنا سکتے ، بھیڑئیے کے دل میں بھیٹر کیلئے ہمدردی نہیں جگا سکتے ، لہذا صاحبو سچی بات ہے سیاپے کی یہ نائین تھک چکی ہے آخر قبرستان میں اذان دینے کی ایک حد ہوتی ہے۔ اداس بہنوں کی چادر کے خون فشاں پرزے۔۔۔۔۔ ضعیف ماؤں کے آنسو ہر اک موڑ پہ آج۔۔۔۔۔۔ مانگ رہے ہیں نفس نفس سے حساب۔۔۔۔۔اور کہاں رکے گایہ لہو کا بے اماں سیلاب۔۔۔۔۔ ارے یہ کون ہیں جو گھروں کو ویران کیے جاتے ہیں؟؟؟؟
اپنے مذہب کو سچ سمجھ کردوسروں کی گردنیں اڑانے اور جان سے مارنے والے وحشت گر اور دہشت گرد کس بستی کے انسان ہیں؟؟؟کیا کوئی کتاب انہوں نے پڑھ رکھی ہے یا کوئی ایسا خاص آسمانی حکم ان پر اترا ہے جو بنا ملال ماؤں کی گودیں اور جنتیں اجاڑتے چلے جاتے ہیں۔۔۔۔ کسی کی آنکھ کا نور۔۔۔۔کسی کے گھر کا پالنہار۔۔۔۔۔بہنوں کا بھائی۔۔۔۔۔بھائیوں کا بھائی۔۔۔۔۔۔باپ کا بیٹا۔۔۔۔ بیٹے کا باپ۔۔۔۔۔۔سہاگن کا سہاگ۔۔۔کسی کا ہمسائیہ ۔۔۔کسی کا دوست۔۔۔انکی زندگیوں اور موت کا فیصلہ کرنے والے درندے کس ابدی زندگی کے خواہشمند ہیں؟؟؟؟
انسانوں کا قصور کیا ہے، کچھ طاقتور اپنی طاقت کے بل پردوسروں غلام بنانے کے خواہش مند کیوں ہیں؟؟؟اپنی مرضی سے کسی انسان کی جان لینا کتنا آسان ہو گیا ہے۔۔۔۔ ایک لمعے کو کوئی نہیں سوچتاکہ مرنے والے اس انسان پرکسی کی کتنی محنت صرف ہوئی ہے ،کسی کی کتنی عبادت،ریاضت اورمشقت کے بعد ایک نومولود اپنے قدموں پر کھڑا ہوتا ہے، پڑھتا ہے،ایک ایک لفظ کو یاد کرنے کی مشقت اٹھاتا ہے۔۔۔ایک ایک ادب آداب کا ہاتھ تھامتا ہے۔۔۔۔۔۔کیسے زینہ زینہ آگے بڑھنے کا جتن کرتا ہے اور جب جسی کا سہارا بننے کا وقت آتا ہے توکسی ظالم ، سنگدل کی انا کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔کوئی ایسے لفظ نہیں ہیں جوظالموں کے پاؤں میں دھاگے سا بھیبند باندھ سکیں۔۔۔۔۔۔یہ وحشی درندے کیوں نہیں سوچتے کہ ایک انسان مر گیا ہے۔۔۔ایک انسان جو بلکل ان جیسا تھا۔۔۔۔ جو بلکل ہمارے جیسا تھا۔۔۔۔ بے شمار خواہشوں سے جڑا ہوا۔۔۔۔جزبوں سے سینچا ہوا۔۔۔۔ خوشبوؤں میں بسا ہوا۔۔۔۔ ایک انسان ۔۔۔۔ جو خوابوں کی ٹوکریاں اٹھائے اپنے مسکن سے نکلتا ہے اور پھر کسی دوسرے انسان کی نخوت اور نفرت کا شکار ہو جاتا ہے۔۔۔۔ اس کا قصور اتنا ہے کہ اس کم عقل کا نظریہ وہ نہیں جو قاتل کا ہے۔۔۔۔۔ اسکی سوچ ظالم کی سوچ سے مماثلت نہیں رکھتی۔۔۔۔۔۔ اسکی دلیل سے کوئی قائل نہیں ہو سکا تو اب جینا اس کا حق کیونکر ہے۔۔۔۔۔۔ یہ انسان انسانوں کو مارنا کب بند کریں گے؟؟؟؟؟
ان وحشیوں کے اندھے عقیدے انکوانسانیت بھی نہیں بخشتے؟؟؟؟آخر ان کا مطمع نظر کیا ہے ؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔اس وحشیانہ پن اور ظالمانہ طاقت کے استعمال کانقطہ عروج کیا ہے؟؟؟؟۔ ۔۔۔۔۔ انسانوں کی اس بستی میں کوئی انسان بھی ہے کہ نہیں؟؟؟؟؟؟ کوئی ہے جو اس گھناؤنے اور دہشت گردانہ کھیل کو روک سکے؟؟؟؟؟کہاں رکے گا یہ لہو کابے ایماں سیلاب؟؟؟؟؟؟
کچھ ایسے الفاظ نہیں جو کسی انسان کو قائل کر سکیں کہ اختلاف کی حد کنارہ کشی تک بھی رکھی جا سکتی ہے۔۔۔۔۔طاقت کا مظاہرہ بے گناہوں کا خون روک کر اور زندہ رکھ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔ایک انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہے۔۔۔۔۔اور انسان میں اگر انسانیت ہو تووہ چاہے جو کچھ بھی ہو انسان تو ہے۔۔۔۔۔۔اسکا رنگ، فرقہ،زبان، نظریات مختلف ہو ں تو ہوں لیکن اسکی انسانیت کی تقدیس کاسبق کون یاد رکھے گا؟؟؟؟؟نہ جانے انسان کب سمجھے گا۔۔۔۔۔۔۔ یا الہیٰ !!!! کیا کریں۔۔۔۔ الفاظ وضاحت سے عاری ہیں۔۔۔۔۔لغت معنی و مفہوم فراہم کے سے عاجز و مجبور ہے۔۔۔۔۔۔شقاوت، درندگی،حیوانیت، بربریت اور سفاکی جیسے الفاظ بھی اس فعل کی سنگینی کے سامنے مجھے حقیر اور بونے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔میں جو لفظ بھی چنتا ہوں وہ بے مائیگی،بے بسی اور شرمندگی کی تصویر بن جاتا ہے۔ایک اسلامی معاشرہ تو بہت دور کی بات ہے،کسی نام نہاد انسانی معاشرے میں بھی اس اندازکی انسان کشی بلکہ معصوم کشی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاجس طرح سانحہ لاہور، کوئٹہ ،پشاور اور سیون شریف میں بارود کی بوچھاڑ کی گئی۔اگر کوئی وحشی درندہ بلکہ اس سے بھی بدتر انسان جواسلام کا نام بھی لیتا ہوپھر بھی وہ اس طرح کے گھناؤنے جرم کامرتکب ہو جائے تو یہ اس پر اللہ تعالیٰ،فرشتوں اور تمام مخلوق کی لعنت سے کم نہیں اور ایسے شخص دنیا کی تمام ذلتوں کے ساتھ روز قیامت بھی بدترین سزاؤں کے متستحق ٹھہریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں