“ایک ایسے جہلمی نوجوان کی کہانی جس کی زندگی دوسروں کے لئے مثال بن سکتی ہے ”
گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سائنس کا طالب علم ہونے کے ناطے وہ اس مسئلے کے بارے میں کچھ آگاہی رکھتا تھا،اسے معلوم تھا کہ یہ ایک بیماری ہے اور دوسری بیماریوں کی طرح قابل علاج ہے، دوسرے مریضوں کے برعکس وہ مایوس نہیں ہوا ،اسے اس بیماری سے لڑنا تھا ،اپنی مضبوط قوت ارادی کی مدد سے اس نے ایسا کیا.
اس نے ایسی صورت حال میں کبھی ہار نہیں مانی لیکن حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ جو بات اس کو پریشان کر رہی تھی وہ یہ کہ اب وہ مکمل یکسوئی اور توانائی کے ساتھ اپنا کام سرانجام نہیں دے سکتا تھا، جیسا وہ ہمیشہ کرتا رہا ہے،لیکن اس موقع پر اس نے امید کا دامن نہیں چھوڑا،اور اس ایک سال کو اپنی زندگی کاقیمتی سال سمجھا،اس ایک سال نے اسے زندگی،دنیا اور لوگون کے بارے میں جو سبق سکھایا وہ گزشتہ 27سال نہ سکھا سکھے،سہیل خود تسلیم کرتا ہے کہ
” میری تمام ڈگریاں مجھے وہ طاقت نہ دے سکیں جو اس ایک سال میں ،میں نے اپنے اندر محسوس کی۔ میں صحت کی اہمیت سے آشناہوا، اپنی زندگی میں چھپے قیمتی خزانے کو پایا، ایک ایسی چیز جس کو کھوئے بغیر ہم نہیں جان سکتے، مجھے معلوم ہوا کتنے لوگ مجھے پیار کرتے ہیں،دسرے لوگوں کی زندگی میں اپنی اہمیت کو کھوجا،علم ہوا زندگی عارضی اور نا پائیدار ہے، زندگی ناپائیدار ہے ،زندگی کے اس لمحے نے مجھے بدل ڈالا۔ عاجزی اور جھکنا سیکھا، میں زندگی میں خوشی کا راز جان گیا،لوگوں کے لئے زندہ رہنا سیکھا،خود غرضی کی بجائے خدمت کو اپنایا، میں نے جانا کہ مایوسی کیا ہے۔ پھر مجھے معلوم ہوازندگی عارضی پن کا دوسرا نام ہے،اورکیسے ہم اپنے اندر بے بس ہوتے ہیں۔ میں نے یہ سب کچھ دوبارہ نہ بھولنے کے لیے یاد کیا ”
وہ ہمیشہ مضبوط رہنا چاہتا تھا اس لئے اس نے مایوسی کی گھٹاؤں سے جان چھڑائی اور منفی سوچوں کو دور بھگایا.
مزید پڑھیے: ایک جہلمی نوجوان کی جہد مسلسل قسط نمبر1تحریر: ڈاکٹر ثریا منظور
اب اسے معلوم ہوا تندرستی ہزار نعمت ہے۔ اس کے لیے یہ سب کچھ ایک بلیک اینڈ وائٹ فلم دیکھنے جیساہے۔ جب آپ صحت مند ہوتے ہو تو زندگی کے ہر پہلو سے لطف اندوز ہوتے ہو۔لیکن جب کوئی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو مضبوط اور مثبت رہنے کے لئے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں.
2011 نے محمد سہیل کو مکمل طور پر بدل ڈالا، زندگی کے بارے میں اسکا رویہ بدل گیا ۔ اس کا انداز فکر ، سوچ اور شخیصت بدل گئی ،اس ایک سال میں اس نے جو چیز سیکھی وہ یہ تھی کہ زندگی کو سمجھناہو تو پیچھے مڑ کے دیکھو اور اگرزندگی گزارنا ہو تو آگے دیکھو.
بہرحال ماضی ایسا وقت ہے جس کو بھلایا نہیں جا سکتا، بیماری نے محمد سہیل کو بہت کچھ سمجھایا،وقت کی دھوکہ دہی سمجھائی اس نے سکھایا کہ آج کی اہمیت ہے،باقی سب بے معنی ہے، کوئی ماضی یامستقبل نہیں ہوتا ، وقت دھوکہ دیتاہے ،ہمیشہ رہنے والا وقت حال ہے،ہم ماضی سے تجربہ حاصل کرتے ہیں لیکن ہم اس میں رہ نہیں سکتے اور ہم مستقبل کی بھی امید نہیں کر سکتے حتیٰ کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا، ماضی کو ایسے یاد کرو کہ اس کا یاد کرنا آپ کو خوشی دے ،سہیل سمجھتا ہے کہ ماضی صرف اداس کرتا ہے اس لئے وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا لیکن مستقبل کے بارے میں سوچتا ہے.
گولڈی ہان(Goldie Hawn) کہتی ہے۔۔۔۔
“کنول بہت خوبصورت پھول ہے جس کی پتیاں یکے بعد دیگرے کھلتی ہیں،لیکن وہ مٹی میں اگتی ہیں،اور عقل مندی حاصل کرنے کے لئے اسے مٹی کی ضرورت ہوتی ہے،زندگی کی راہ میں حائل مصیبتوں کی طرح،مٹی تمام انسانوں سے ایک جیسا سلوک کرتی ہے اس سے قطع نظر کون،کہاں اور کیا ہے؟بلا تفریق ہر انسان کو دکھ،تکلیف،بیماری اور موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے،اگر ہم دانشمندی ،رحمدلی اور ہمدردی جیسی لازوال اخلاقی قدروں سے آشنا ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں کنول کے پھول کی طرح اپنے پرت کھولنے چاہئیں،”
بیماری کے دوران سہیل پر ایک ایسا وقت آیا جب اسے محسوس ہوا کہ وہ بیماری سے صحتیاب نہیں ہو سکتا،لیکن وہ صحتیاب ہوا،اس وقت سے وہ اپنی زندگی کو ایک عطیہ سمجھتا ہے،وہ کہتا ہے کہ
” ہر صبح میرے لیے ایک تحفہ ہے اور میں اسکو کھلے دل سے قبول کرتا ہوں ماضی میں دیکھے بغیر ۔”
ان تمام حالات کے باوجود اس نے اپنے رویے میں منفی عنصر کو شامل نہیں ہونے دیا، وہ ماضی کے تمام تلخ تجربات اور نا خوشگوار حالات کو بھول جانا چاہتا تھا، نئے سورج کو طلوع ہوتا دیکھ کر محفوظ ہونا چاہتا تھااورمشکل سے مشکل حالات میں کام کرنے کو تیار تھا،
تکلیف کبھی ہمیں نہیں چھوڑتی یہ ایک ایسی ذہنی کوفت ہے جو بعض اوقات ناقابل برداشت ہوتی ہے اس کو دورکرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خوشی کے مواقع پیدا کیے جائیں،وہ سمجھتا ہے کہ خوشی حاصل کرنے کے لئے بڑی کامیابیوں کی ضرورت نہیں ہوتی،ہر انسان اپنی حیثیت میں خوشی کے موقع ڈھونڈ سکتا ہے.
بعض اوقات تکلیف دہ صورتحال بھی خوشی کا سبب بن جاتی ہے،ایسا ہوتا ہے کہ آپ ہسپتال میں آپریشن کے بعد بستر پر لیٹے ہوں تو ایک پر خلوص مسکراہٹ آپ کی خوشی کے لئے کافی ہوتی ہے،آپ کو پر امید کر دیتی ہے،بہرحال “ایمان”وہ قوت ہے جو دراصل آپ کی خوشی کی بنیاد ہے،ایمان یہ ہے کہ آپ بہتری کی امید رکھیں،خداپر بھروسہ رکھیں،تیجتاََ وہ چیز آپ کو انعام کے طور پر مل جاتی ہے،کچھ لوگ ساری زندگی روشنی کی ایک رمق سے محروم رہتے ہیں لیکن سہیل خوش قسمت واقع ہوا کہ اسے یہ روشنی ملی،اس نے کاروباری دنیا میں قدم رکھا اور امریکہ میں ماہر جنگلات کہلوانے کی بجائے ایک کمپنیSky heigh ts Tradersکے نام سے شروع کی،اس کی بیماری اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنی،2011میں گردوں کی پیوند کاری کے بعد محمد سہیل اپنی کمپنی کا ڈائریکٹر بن گیا،مذکورہ کمپنی موبائیل فون اور کمپیوٹر ریپئرنگ کا کام کرتی ہے.
امریکہ میں دو سال اور ایک سال ڈنمارک میں گزارنے کے بعد اس نے اپنے کاروبار پر دسترس حاصل کر لی.
وہ جانتا تھا کہ نئے پیوند شدہ گردے زیادہ عرصے تک کام نہیں کر سکیں گے،لیکن اس موقع پر اس نے پرتگال کی معروف یونیورسٹی میں نامکمل Ph.D کی تعلیم دوبارہ شروع کردی ۔ اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود وہپر تگال اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے چلا گیا۔
ملک، دولت اور اعلیٰ معیار زندگی اس کے لئے اہمیت نہیں رکھتے تھے لیکن علم اور بہتر زندگی کی طرف سفر کو اس نے اہمیت دی،
یہ اسکا خواب تھا کہ اسے اس کے کام کی وجہ سے پہچانا جائے اس کی زندگی کے ابھی مزید 6ماہ مشکل سے گزرے ہوں گے کہ اس نے محسوس کیا کہ اس کے گردے ایک دفعہ پھر بالکل کام کرنا چھوڑ چکے ہیں۔
“ایک دفعہ پھروہ اس اتکلیف دہ صورت حال میں تھا جس سے بچنے کی اس نے ہر ممکن کوشش کی تھی”
دوبارہ گردوں کی صفائی ہوئی ۔ شائد یہ خدا کے بعددوستوں ، رشتہ داروں ، پرتگال میں پاکستانی سفیر، ادارے کے سر براہ ،یونیورسٹی پروفیسروں اور سپر وائزر کی اخلاقی مدد تھی کہ وہ اس صورتحال سے بھی نکل آیا ۔گردوں کی صفائی کے دوران بھی اس نے اپنی تعلیم جاری رکھی،جہاں لوگ سالوں تک گردوں کی پیوند کاری کے لئے انتظار کرتے ہیںیہاں وہ ایک دفعہ پھر خوش قسمت واقع ہوا ،کہ گردوں کی صفائی کے دو ماہ بعد ہی اس کو پیوند کاری کے لئے کال موصول ہوئی.
اس وقت وہ سانتا ماریا ہسپتال(Santa maria hospital)میں بستر پر موجود ہے،جہاں محمد سہیل پیغام دیتا ہے کہ۔۔۔
” اس لمحے Santa Maria Hospital میں سوچتا ہوں کہ نہ ہی ڈاکٹریٹ نہ ہی پرتگال اورنہ ہی یورپ میری منزل ہے بلکہ میں نے ابھی تک اپنے حتمی منزل کو نہیں چنا،بہت ممکن ہے کسی دن میں اپنی زندگی کا دوسرا حصہ بیان کروں گا،یہ وقت بتائے گا کہ میں اپنے خوابوں کی تکمیل کر سکتا ہوں یا نہیں کر سکتا، مجھے معلوم نہیں کیا ہو گا تاہم اتنا جانتا ہوں کہ انسانیت کی خدمت کیے بغیر میں مرنا نہیں چاہتا، ممکن ہے میں اس میں ناکام ہو جاؤں مگر کم از کم اس کے لئے جدو جہد کرنے پر مطنئن ہوں،میری خواہش ہے کہ اگر انسانیت کی خدمت کے لئے کوئی بڑا کام نہ کر سکوں تو صرف اس کی ابتداء کرتا جاؤں،جس سے مجھے تسلی ہو کہ میں نے کوئی قابل فخر کام کیاہے،”
وہ اپنے ڈاکٹر،سٹاف اور، ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے پیشہ وارانہ خلوص ، محبت،ہمدری اور نگہداشت پر ان کا بے حد مشکور ہے، اسکا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں ابھی ڈاکٹر مریض اور سٹاف کے درمیان ہم آہنگی کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے،گزشتہ دس سال میں اسے پاکستان یورپ اور امریکہ میں میڈیکل سہولیات کا جائزہ لینے کا موقع ملا،اس کا مشاہدہ ہے کہ ابھی مریض اورڈاکٹر کے درمیان ایک اچھے تعلق کی ضرورت ہے ،اس کے مطابق ایک صحت مند انہ رویہ مریض کو کافی حد تک صحت یاب کرتا ہے،وہ کہتا ہے کہ پاکستان میں میڈیکل کے پیشہ سے وابستہ دوست شائد اس سے متفق نہ ہوں ہیں لیکن ہمارے ملک میں اس شعبے میں ابھی بہت بہتری کی گنجائش موجود ہے، جس کو ہم اپنی کوشش،عزم اور انسانیت نوازی کے ساتھ بہتر بنا سکتے ہیں.
سرونسٹن چر چل نے ایک دفعہ کہا تھا۔۔۔۔
‘A pessimist sees the difficulty in every opportunity, an optimist sees the opportunity in every difficulty.’
اب یہ جہلمی نوجوان محمد سہیل ضلع جہلم میں گردوں کا مرکز بنا نے کا سوچ رہا ہے .
ہماری خواہش ہے کہ ہم اسے سیاست میں بھی دیکھیں گے جو کہ اسکا سب سے بڑا خواب ہے،بلاشبہ ہمارے ملک کو متحرک ، پر عزم اور پڑھے لکھے افرادکی ضرورت ہے اورہم یہ سب خصوصیات اس میں دیکھتے ہیں،محمد سہیل نے راقم الحروف کے ساتھ گفتگواس بات پر ختم کی کہ
میں نے زندگی کے بد ترین حالات میں بھی بہتری کاموقع تلاش کیا اور آج مطمئن اور پراعتماد ہوں۔ اس لیے ہمیں کبھی ہار نہیں ماننی چاہیے ہمیشہ پر عزم اور پر اعتماد رہنا چاہیے بلکہ اس مختصر زندگی میں ہمیں ہر دن خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے ہمیں دیکھنے کے لیے ایک اور دن دیا،مستقل کا کوئی وعدہ نہیں ہے۔ ماضی لوٹ کر نہیں آئے گا اس لئے جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ آج ہے،لہٰذا ہمیں اس میں پھر پور اورہر ممکن طریقے سے رہنا چاہیے.
بس مہربان بن جاؤ،ایک دوسرے سے محبت کرنے والے بن جاؤ۔
ختم شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔