جہلمی نوجوان

ایک جہلمی نوجوان کی جہد مسلسل قسط نمبر1تحریر: ڈاکٹر ثریا منظور

“ایک ایسے جہلمی نوجوان کی کہانی جس کی زندگی دوسروں کے لئے مثال بن سکتی ہے ”

زندگی میں اعلیٰ مقاصد کا حصول نا ممکن نہیں،نہ ہی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے عمر کی کوئی قید ہے،کامیابی جلد حاصل ہو یا دیر سے بہرحال کامیابی ہوتی ہے.

کامیابی در حقیقت آپ اس وقت حاصل کرتے ہو جب آپ اپنے اندر چھپی صلاحیتوں ، توانائی،اور اپنے اختیارسے آگاہ ہوتے ہیں،اور آپ اپنے خوف پر حاوی ہوتے ہیں توآپ کی مہارت کھل کر سامنے آتی ہے، یقینازندگی میں آگے بڑھنے کے لئے شکوک و شبہات سے جان چھڑانا پڑتی ہے.

یہی وہ بیانیہ ہے جس کوجہلم سے تعلق رکھنے والے نوجوان محمد سہیل نے سچ کر دکھایا۔

دوسرے لوگوں کی طرح محمد سہیل کی شخصیت کے کئی پہلو مخفی رہے، اسکو جاننے والے اس کی چند شوخ عادتوں سے واقف ہیں،لیکن یہ اس کی شخصیت کے وہ ظاہری پہلو ہیں جن کہ اند رایک دوسرا محمد سہیل چھپا ہوا ہے جس نے کامیابی حاصل کرنے کے لئے زندگی میں بے شمار نشیب و فراز دیکھے اور بے پناہ جدو جہد کی.

ایک مڈل کلاس جرال خاندان کا چشم و چراغ محمد سہیل 4اکتوبر 1983کو پاکستان کے ضلع جہلم میں پیدا ہوا، بچپن سے ہی اس نے اپنی آنکھوں میں بڑے خواب سجھا رکھے تھے، اوسط درجے کاطالب علم ہونے کے باوجود اسکے ارادے بہت بلند تھے اور وہ جانتا تھا کہ اپنے بڑے اہداف کی تکمیل ایک دن وہ ضرور کرے گا۔

وہ اس حقیقت سے بھی آشنا تھا کہ زندگی میں کامیاب انسان بننے کے لیے بہترین ادارے کی ڈگری سے زیادہ خود اعتمادی ، یقیں محکم ، مستقل مزاجی اور غیر معمولی اہداف کا تعین اور خطرات سے کھیلنے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکے مطابق ان خوبیوں کے حامل افراد نہ صرف اپنے آپ بلکہ دوسروں کے لئے بھی مفید ہوتے ہیں.

اس کی زندگی کی داستان سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک حوصلہ مند ، پر عزم اور صاحب بصیرت انسان ہے،.

ابتدائی تعلیم نیشنل فاؤنڈیشن سکول جہلم سے حاصل کرنے کے بعد اس نے جہلم کے معروف تعلیمی ادارے فوجی فاؤنڈیشن ماڈل سکول میں داخلہ لیا.

محمد سہیل ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے” یہ موقع میرے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا، مجھے وہ پر مسرت لمحات یاد ہیں جب داخلہ حاصل کرنے کے بعد میں خوشی سے پھولے نہ سماتا تھا، تاہم یہ اس کی کامیابیوں کی ابتدا تھی،آگے چل کر اس نے زندگی کے سفر میں نصابی اور غیر نصابی میدان میں بہت سی کامیابیاں سمیٹنی تھیں خصوصاََکھیل اور تقریری مقابلوں میں،تعلیمی میدان میں وہ فوجی فاؤنڈیشن سکول کے بعد آرمی پبلک سکول اینڈ کالج اور پھر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد تک جا پہنچا،بعد ازاں پاکستان کے بہترین ادارے پاکستان فاریسٹ انسٹیٹیوٹ سے تربیت حاصل کرنے کے بعد فاریسٹ آفیسر کی حیثیت سے اس نے اپنے شاندار کیریئر کا آغاز کیا۔

مطالعے کے شوقین ناطے سے اس نے بہت سے کتابیں اور سوانح عمریاں پڑھ رکھی ہیں، جن میں سے
Alchemist by Paulo Coelho
Forty rules of love by Elif Shafak
Working with sharks by Fauzia Saeed
Cross swords by Shujah Nawaz
اسکی پسندیدہ کتابیں ہیں،مشہور اور کامیاب شخصیات کی سوانح حیات کا قاری ہونے کا فائدہ اس کو یہ ہوا کہ مطالعے نے اس کے کرداراور ذہن کو مثبت انداز میں ڈھالا.

مزید پڑھیے: ایک جہلمی نوجوان کی جہد مسلسل (آخری قسط) تحریر: ڈاکٹر ثریا منظور

محمد سہیل خود راوی ہے کہ کامیاب شخصیات کی کہانی اور محاسن کا جائزہ لینے کے بعد مجھ پر یہ راز کھلا کہ بڑے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لئے زندگی میں رسک لینا کس قدر ضروری ہے،اپنی زندگی کو اپنے خیالات کے مطابق ڈھالنے کے لئے میں نے محسوس کیاکہ مجھے دلیرانہ(Bold) فیصلے کرنا ہوں گے.

“میرے مطابق انسان کو اپنی زندگی پر اثر انداز ہونے والا ہر ٖفیصلہ خود کرنا چاہئے اس میں اس قدر حوصلہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے فیصلہ کن موڑ لے سکے”

ایک کامیاب انسان کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے میں نے جائزہ لینا شروع کیا کہ اپنی زندگی کو مزیدبہتر بنانے کے لئے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہوں، دراصل میں آگے بڑھنا چاہتا تھا، اپنے ارد گرد ہرچیز کا مشاہدہ اورتجزیہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اپنے آپ کو نکھارنے کے لئے مجھے جدید علم سے لیس ہونا پڑے گا، اس لمحے میں نے اپنے اندر مزید علم کی پیاس محسوس کی،چنانچہ ذہنی طور پر یکسو ہوکر،ڈویژنل فاریسٹ آفیسر کے طور پر ایک سال تک خدمات سرانجام دینے کے بعد محمد سہیل نے ایک قدم آگے بڑھایا،اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے وہ جرمنی چلا گیا تاکہ پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر سکے.

زندگی نشیب وفرازسے بھری پڑی ہے،جب آپ اپنی منزل کے بہت قریب ہو ،اپنے خوابوں کی تکمیل ،کامیابی کی صورت میں آپ کے سامنے کھڑی ہو ،اس لمحے آپ کو اگر کوئی جھٹکا لگے تو یہی وہ وقت ہوتا ہے جب زندگی کی تلخ حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کو اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنا ہوتا ہے، محمد سہیل کو بھی زندگی میں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا،۔ اسے بھی بہت سی سختیوں اورمزاحمتوں کا سامناکرنا پڑا لیکن وہ پر عزم اورمضبوط اعصاب کا مالک تھا اس لئے سرخرو ہوا.

آپ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ زندگی کے سٹور میں آپ کے لئے کیا کچھ موجود ہے، بعض اوقات زندگی ایک ایسی رولر کوسٹر(Roller Coaster)کی مانند ہو جاتی ہے جو آپکو نیچے سے نیچے لے جاتی ہے آپ حیران ہوتے ہو کہ کبھی یہ اوپر بھی آئے گی،اس دوران زندگی آپ کو دکھ دینا شروع کر دیتی ہے،اس صورتحال سے نمٹنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ ان دکھوں کو کھلے دل سے تسلیم کریں،ان کو خوشیوں میں تبدیل کریں اور دوسروں کو بانٹنا شروع کر دیں۔

ہر چیز معمول کے مطابق چل رہی تھی وہ اسی راستے پر چل رہا تھا جو اس نے اپنے لئے چنا تھا، اس کا خواب حقیقت بننے جا رہا تھا ،جرمنی سے MS،فرانس کے شہر Marseilli سے ریسرچ اور یونیورسٹی آف پراگ سے چند کورسز مکمل کرنے کے بعد اسے موقع ملا کہ امریکہ کی معروف یونیورسٹی مشی گن سے روتھ سٹین(Dr Roth Stein)کی زیر نگرانی ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کرے،اس کی خواہش تھی کہ ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کے بعد وہ واپس آکر ملک کی خدمت کرے،یہ وہ وقت تھا جب حالات نے کروٹ لی،زندگی آنکھیں پھیرتی نظر آئی،
2011 ء میں جب وہ محض 28سال کا ہو ا تواسکے گردے خراب ہونے کی تشخیص ہوئی ، یہ یقیناًایک ایسا صدمہ تھا جس نے اسے جھنجھوڑکے رکھ دیا،خصوصاََایک ایسے شخص کے لیے جو اپنی زندگی میں کامیابی کی منازل طے کر رہا تھا، یہ صورتحال ناقابل بیان تھی،
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید تفصیل جاننے کے لئے قسط نمبر 2پڑھیں

ایک جہلمی نوجوان کی جہد مسلسل قسط نمبر1تحریر: ڈاکٹر ثریا منظور” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں