صاحب صدر!
یہ راز اب کوئی راز نہیں کہ شاہی خاندان اور شرفاء کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے،اس تعلق کو ہمارے والد گرامی قدر نے خوب نبھایا،پہلے بڑے بھائی دیکھتے تھے اب ہم دیکھتے ہیں لیکن کم دیکھتے ہیں،
قبلہ! ہمیں معلوم ہے کہ آپ اس ملک میں رہتے ہیں جہاں “بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے”جیسی جمہوری روایت پر عمل کرنے کا مضحکہ خیز دعویٰ کیا جاتا ہے،
اس دعوے کی حقیقت سے قطع نظر ہماری شاہی روایات ذرا مختلف ہوتی ہیں،شاہی عنایات کی ایک طویل داستان ہے جو یہاں بیان کرنے سے قاصر ہوں،صرف اتنا کہوں گا کہ جس “نان و نفقہ “پر آپ کے ہاں بہت لے دے ہو رہی ہے وہ صرف ہم نے مدعاعلیہ کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے حوصلہ افزائی کے لیے فراہم کیا،اس کو قانونی کٹہرے میں کھڑا کر کے تفتیش کرنا ہمارے نزدیک انصاف کی تحریک نہیں بلکہ سرا سر نا انصافی ہے،
جناب عالی!دروغ بر گردن راوی،ہمیں بتایا گیا کہ ایک دادا نے اپنے پوتے کو اس جائیداد کا وارث بنانے کا فیصلہ کیا ہے چنانچہ اس فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم نے بھی حصہ ڈالا،قصہ مختصر یہ ایک دادا -پوتا نجی معاملہ ہے جس کو عدالتی ایوانوں میں گھسیٹا جا رہا ہے،ہمارے نزدیک اور بھی دکھ ہیں آپ کے ملک میں اس کے سوا ،یہ مشورہ بے جا نہیں ہو گا کہ آپ ان غیر سیاسی دکھوں کا مداوا کریں،
خیر اندیش
عزت مآب —-بقلم خود
نوٹ:مندرجہ بالا تحریر حقیقی دستاویز نہیں محض ذہنی اختراع ہے،