با ہمت نوجوان

با ہمت نوجوان تحریر : پروفیسرشاہد بشیر

پروفیسر عمر احسن کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو بے پناہ محنت، ہمت اور استقامت کے ساتھ منزل کی طرف بڑھتے ہیں، اور رستہ کی ہر تکلیف اور پریشانی کو خاطرمیں لائے بغیر آگے سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کافی لوگ اپنی کمزوریوں اور مسائل کا ماتم کرتے ہوئے ساری عمر بتا دیتے ہیں۔ ایسے ماتمی لوگ زندگی میں بہترمقام حاصل نہیں کر پاتے، بلکہ اپنی ناکامیوں کو قسمت کے کھاتے میں ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں ۔جبکہ کامیاب لوگ اپنی کمزوری کو ہی اپنی طاقت بنا کر کامیابی کی راہ پر گامزن ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا حوصلہ اور ظرف بھی بلا کا ہوتا ہے بقول غالب

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر

منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہونے والی بلاول جیسی برگر نسل کو کیا خبر زندگی کے مسائلستان میں اپنے لیے جگہ بنانا اور اپنے حصے کی خوشیاں کشید کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔

بہرحال بات ہو رہی تھی عمر احسن کی جوایک سچا فنکار ہے۔وہ جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہے تو پھر ان خوابوں کو خوبصورت ماڈلز میں ڈھال کر انھیں مادی وجود بھی بخش دیتا ہے۔ انھی خوابوں کے رنگوں سے سجایا ہوا ایک خوبصورت گھر کا ماڈل (نمونہ) بھی عمر احسن کے ہاتھوں زمانہ طالبعلمی میں ہی تخلیق ہو چکا تھا، جو اب حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ اگر آغاز سفر میں ہی خواب حقیقت بننے لگ جائیں تو سمجھ لینا چاھئیے کہ آگے چل کر بہت بڑی کامیابیاں اور منزلیں آپکی منتظر ہیں۔

عمر احسن کا تخلیقی کینوس کثیرالجہتی ہے،یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس کہانی نویس کا ہنربھی ہے۔ تاہم غریب اور متوسط طبقے کے لیے کہانی لکھنا مسئلہ نہیں ہوتا ،گویاان کے ہاں ہر روزنت نئی کہانیاں جنم لیتی رہتی ہیں۔ بس ایک حساس دل اور بے جان حرفوں میں روح پھونکنے کا سلیقہ درکار ہوتا ہے۔ جوعمر کافی احسن طریقے سے نبھا رہا ہے۔اس کی کہانیوں کے کردار معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں۔ایسامحسوس ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے کرافٹ میں مزید نکھار آجائے گا۔ ڈر صرف اس بات کا ہے کہ کہیں ہ زندگی کی ضرورتیں اور آسائشیں اس کے اندر کے فنکار اور قلمکار کا گلہ نہ گھونٹ دیں۔

ہمارا معاشرہ بڑا بے رحم اور ظالم ہے، خوبصورت دل اور جاگتی آنکھوں کے خواب دیکھنے والوں کو رسم و رواج کے پھندوں سے یہ شکارکرنا خوب جانتا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ عمر احسن جیسا باہمت نوجوان دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرے۔ آگے بڑھے اور بڑھتا ہی چلا جائے۔ روحانیت کا نور اسکی پیشانی پر چمکتا رہے۔ اس کا حساس دل اپنے ارد گرد کے لوگوں کے دکھوں اور تکلیفوں کومحسوس کر کے لفظوں کےپیراہن میں کہانیوں کی صورت میں ڈھلتا رہے ،اور اس کے اندر کا سچا فنکار ہمیشہ زندہ رہے۔ ہر سال لگنے والی گرہ مبارک ہو۔ اللہ آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے، آمین۔

نوٹ : مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں.

اپنا تبصرہ بھیجیں