دیوان سنگھ مفتون

برصغیر کے پہلے تحقیقی صحافی دیوان سنگھ مفتون تحریر: سید ضیغم عباس

دیوان سنگھ حافظ آباد کے ایک کھنہ کھتری سکھ خاندان میں پیدا ہوئے۔

ابھی ان کی عمرایک ماہ تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔

ان کےوالد ایک کامیاب ڈاکٹر تھے۔ اس لیے گھر میں دنیا کی ہر شے میسر تھی لیکن ان کی وفات کے ساتھ ہی سب کچھ بدل گیا۔

رشتہ داروں نے تمام اثاثےپر قبضہ کر لیا، چنانچہ دیوان سنگھ کو بارہ برس کی عمر میں ہی حافظ آباد کے ایک ہندو بزاز کی دکان پر نوکری کرنا پڑی۔

دیوان سنگھ مفتون نے زندگی کے ہفت خواں طے کرنے کے لیے مختلف کام سیکھے اور مختلف پیشے اختیار کیے۔ اس کےساتھ ساتھ حصولِ علم کے لیے ذاتی مطالعہ بھی جاری رہا۔

اس دوران لکھنے کا شوق پیدا ہوا چنانچہ صحافت کا ایسا چسکا پڑا کہ ساری عمر اسی کے ہو کر رہ گئے۔ سید جالب دہلوی اور خواجہ حسن نظامی جیسے جید صحافیوں سے انھوں نے صحافت کے گُر بڑی کھکیڑ اٹھا کر سیکھے ،پھراپنی محنت اور تگ و دو سے اردو صحافت میں تاریخ ساز کارنامے انجام دیے۔

مفتون ہندوستان کی صحافت کا درخشاں ستارہ بن گئے۔ انہوں نے اپنی کتابوں ’ناقابلِ فراموش‘ اور ’سیف و قلم‘ میں ایسے بہت سارے حقائق بیان کیے ہیں جو والیانِ ریاست، نوابوں اور راجاؤں کے لئےہوش رُبا تھے۔

اپنی داستان حیات کے دورے حصے سیف و قلم کے ابتدائیے میں جوش ملیح آبادی ان کی شخصیت کے بارے میں لکھتے ہیں، ’سیرِچشم، کوتاہ قامت، بُلند حوصلہ، مہمان نواز، شیر دل، دوست پرور، دشمن کانپتے، سلطانِ شکار، گدا نواز، بہترین دوست۔ صحافت میں سردار دیوان سنگھ مفتون اس قول پر پوری ایمان داری سے عمل پیرا تھے کہ ”اخبار نویس دنیا میں ان لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے پیدا ہوا ہے جو مصائب میں مبتلا ہوں۔ ان لوگوں سے ہمارا کوئی تعلق نہیں جو عیش و آرام میں زندگی بسر کر رہے ہوں۔“

سردار دیوان سنگھ مفتون(1890ء تا 1975ء) نے تصویری ہفت روزہ ریاست 1924ء میں شروع کیا جو اپنے مواد اور ہیئت یا صورت و سیرت دونوں کے لحاظ سے اعلٰی پائے کے انگریزی جرائد کی ہمسری کا دعوی کر سکتا تھا۔ دیوان سنگھ مفتون اخبار کے مالک کے ساتھ ساتھ ایڈیٹربھی تھے۔ اس لیے جو چاہتے لکھ ڈالتے ،پھر اخبار میں چھاپ دیتے۔

ان کی معلومات کے ذرائع بڑے وسیع تھے۔ پاکستان میں کسی اخبار نویس کو علم نہ ہو سکا کہ حضرت قائد اعظم ؒ زیارت میں خطرناک حد تک علیل ہیں۔ سب سے پہلے یہ خبر انکے ہندوستانی اخبار ’یاست‘ میں ہی شائع ہوئی تھی۔بے باک صحافت کے علمبردار ہونے کے ناطے دیوان سنگھ کو کئی بار جیل جانا پڑا۔ جیل سے رہائی کے بعد اپنے ہفت روزہ اخبار ”ریاست“ میں ”ناقابلِ فراموش“ کے مستقل عنوان کے تحت ہفتے وار کالم لکھنا شروع کر دیا۔ اس میں وہ دنیا جہان کے موضوعات پر لکھتے تھے، لیکن ہندوستان کی دیسی ریاستوں میں رعایا کے ساتھ ہونے والا ظلم و ستم ان کا خاص موضوع ہوتا۔

اردو صحافت کی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ ہندوستان میں برٹش راج کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کرنے اور عوامی شعور کو بیدار کرنے میں صحافیوں نے بے مثال کردار ادا کیا۔ ان میں سے بعض غداری کے الزام میں قتل ہوئے، جیل گئے اور صعوبتیں سہیں۔

انگریز دور میں برصیغر میں کم و بیش ساڑھے پانچ سو ریاستیں ہوا کرتی تھیں جنہیں Princely States کہا جاتا تھا۔ یہ ریاستیں کئی معاملات میں انگریزوں کی باجگزار ہونے کے باوجود اندرونی معاملات میں کافی حد تک خود مختار ہوا کرتی تھیں۔ ان کے حکمران انگریزوں کے پسندیدہ راجے، مہا راجے، نواب اور خان بہادر ہوا کرتے تھے ،جن کے رعب و دبدبے سے ان کی رعایا خوف کھاتی تھی۔

لیکن یہ سب والیانِ ریاست دراصل ایک ْریاست ْسے خوف کھاتے تھے۔ یعنی ہفت روزہ اخبار ریاست ، جس کے ایڈیٹر سردار سنگھ مفتون تھے جو اپنے اخبار میں ان والیانِ ریاست کے ظلم، جبر و جرائم کا پردہ چاک کرتے تھے۔جس کی پاداش میں دیوان سنگھ مفتون پر مقدمات کی بھرمار ہوتی، انھیں جھوٹے مقدمات میں جیل جانا پڑتا۔ بعض مقدمات تو چھ چھ سو کلومیٹر دور قائم کیے گئے تاکہ سردار صاحب ذہنی کوفت کے ہاتھوں تنگ آ جائیں، لیکن سردار صاحب نے ان سب ہتھکنڈوں کا ذہانت اور جوانمردی سے مقابلہ کیا، نوابوں اور راجوں کی رعونت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے انکار کیا۔

کہا جاتا ہے کہ ریاستوں کے عوام میں شعور اور آزادی کی جوت جگانے میں سردار دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر ریاست کا بہت اہم کردار تھا۔ ان کا اخبار”ریاست“ مظلوموں کی پناہ گاہ تھا۔ ستم رسیدہ لوگ اپنی شکایتیں لے کر ان کے پاس پہنچتے تو وہ تحقیق کے بعد ان کی حمایت پر کمر بستہ ہو جاتے۔ ”ریاست“ نے دیسی ریاستوں اور راجواڑوں کے حکمرانوں کی سیاہ کاریوں ،سازشوں، حکومت اور پولیس کی چیرہ دستیوں ،معاشرے کی ناہمواریوں اور ظلم و جبر کو آشکارا کر کے اردو صحافت میں آزادی رائے اور بے لاگ تنقید و احتساب کی ایک روشن روایت قائم کی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں