سکندر اعظم اور راجہ پورس کا میدان جنگ دراصل جہلم تھا،جوگی جہلمی،درشن سنگھ آوارہ ،ضمیر جعفری،تنویر سپرا،گلزار،مولوی مجید ملنگ،میجراکرم شہید،جنرل آصف نواز جنجوعہ،راجہ غضنفر علی خان اور چوہدری الطاف حسین جیسی شخصیات بھی جہلم کا تعارف ہیں، لیکن ایک شخص جس نے ستر کی دھائی سے ایک چھوٹی سی لائبریری سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جہلم میں پبلشنگ کا ایک بہت بڑا ادارہ بنانے میں کامیاب ہوا،اور ادارہ بھی ایسا جس کی” بک کارنر جہلم” کے نام سے پوری دنیا میں دھوم ہے،یہ کتانی مرکز آج جہلم کی پہچان بن چکا ہے،اس شخص کا نام شاہد حمید تھا،جو چند روز قبل اس دنیا سے چلے گئے.
شاہد حمید ایک سیلف میڈ آدمی تھے،راقم الحروف سے ان کی پہلی ملاقات نوے کی دھائی میں تھی،جو شاید صدی کا آخری سال تھا،چوک اہلحدیث جہلم میں نسبتاََ چھوٹی دکان میں سخت گرمی کے موسم میں موجود تھے،لمبا قد،بال بکھرے ہوئے ،چہرے پر گرمی کے تاثرات لیکن ہر گاہک سے خوش خلقی سے پیش آ رہے تھے،اس کے بعد ان سے کافی ملاقاتیں رہیں،جس کتاب کا استفسار کیا وہ پوری کہانی بیان کر دیتے،ان کی اولاد میں اگر بک کارنر جہلم کی کتابوں کو بھی شامل کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا،بہرحال وہ انسان تھے،اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے.
ان کے بیٹے گگن شاہد اور امر شاہد اب بک کارنر کا انتظام سنبھال رہے ہیں،امید ہے کہ وہ اپنے والد کے علمی سفر کو جاری رکھیں گے،اور قارئین کو مطالعے کا سامان بہم پہنچاتے رہیں گے.