پاکستان کے معروف نیورالوجسٹ ڈاکٹر خالد جمیل اختر کے نام اور کام سے کون واقف نہیں .
وہ بگ برادر کے نام سے مشہور ہیں.
انہوں نے جسمانی اور ذہنی بیماریوں کے شکارمریضوں کے لئے بے پناہ خدمات سرانجام دی ہیں.
ان مریضوں کو خصوصی افراد کا درجہ دلوانے میں ڈاکٹر صاحب کا مرکزی کردار ہے.
ڈاکٹر خالد جمیل کی زندگی جہد مسلسل کی ایک داستان ہے،جو غیر معمولی واقعات سے بھری ہے.
انہوں نے اپنی خودنوشت سوانح حیات “تیسرا جنم” میں اپنی زندگی کے کئی پوشیدہ پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے.
اس کہانی میں ایک معصوم بچہ بھی ہے اور ایک ٹاپر سٹوڈنٹ بھی ہے،ایک اتھلیٹ بھی ہے اور ایک معذور شخس بھی ہے،یونیورسٹی سٹوڈنٹ یونین کا صدر بھی ہے اور ایک موٹیویشنل سپیکر بھی ہے،یعنی ان کی زندگی متنوع رنگوں سے بھری ہوئی ہے.
قارئین کی دلچسپی کے لئے ان کی زندگی کی کہانی پیش کی جا رہی ہے.
خاندانی پس منظر:
ڈاکٹر خالد جمیل کا تعلق جہلم کے نواحی گاؤں میرا کے جٹ زمیندار خاندان سے ہے،ان کے والد اختر حسین کسٹم آفیسر تھے،ان کے چچا باؤ اعجاز حسین نامور اتھلیٹ تھے،ان کے کزن داکٹر خالد سعید جہلم کے معروف ماہر نفسیات ہیں اور جہلم پولی کلینک کے نام سے ایک ہسپتال چلا رہے ہیں.
اگر ان کے ننھیال کی بات کریں تو وہ قریبی گاؤں متیال میں ہے،ان کے نانا سردار اللہ داد یا جمعداراللہ داد بھی جٹ زمیندار تھے،وہ بھی علاقے کی معروف شخصیت تھے،ایوب خان کے دور حکومت میں وہ بی ڈی ممبر بھی رہے.
تعلیم:
انہوں نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اور کراچی کے سکولوں سے حاصل کی،اس کے بعد پٹارو کیڈٹ کالج سے میٹرک اور ایف ایس سی کا امتحان اعلیٰ نمبروں میں پاس کیا،میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے 1974ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ لیا،وہاں پڑھائی کے دوران انہیں پاکستان کے سب سے بڑے سکالرشپ کا اعزاز ملا،یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ یونین کے صدر بھی رہے،آخر وہاں سے ڈگری حاصل کی،بعدازاں انہوں نے برطانیہ سے سپیشلائزیشن کی.
زندگی کا سب سے بڑا حادثہ:
ڈاکٹر خالد جمیل اختر کی زندگی ایک حادثے کے گرد گھومتی ہے.
انہوں نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ 14فروری1979ء کی شام کو وہ اپنے دوست کے بھائی کی شادی میں شرکت کے لئے لاہور سے روانہ ہوئے.وہ اپنے کزن خالد سعید ،دوست ناصر اور اسکی فیملی کے ہمراہ کار میں سفر کر رہے تھے.جہلم سے راولپنڈی کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ان کی گاڑی اچانک ایک ٹرک سے ٹکرا گئی،جس سے ناصر کے انکل موقع پر جاں بحق ہو گئے.ان کے کزن سعید کو بھی چوٹیں آئیں،لیکن ڈاکٹر خالد جمیل کی ٹانگیں شدید جھٹکے سے مڑ گئیں،جس کے بعد ان کی کمر دباؤ کی وجہ سے ٹوٹ گئی،اور وہ زندگی بھر کے لئے معذور ہو گئے.
موقع پر موجود ایک فوجی کیپٹن نے ان کو وہاں سے سی ایم ایچ راولپنڈی منتقل کر دیا.وہاں ایک مہینے تک زیر علاج رہنے کے بعد ایک روز ڈاکٹروں کے ایک میڈیکل بورڈ نے مکمل معائنے کے بعد ان کے والد کو بتایا کہ ان کا بیٹا اب ساری زندگی چل نہیں سکے گا.
بگ برادر نے لکھا ہے کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے کربناک لمحہ تھا.
تاہم انہوں نے تہیہ کر لیا کہ وہ اس معذوری کے خلاف جنگ لڑیں گے.
بیماری سے جنگ:
انہوں نے اپنی بیماری کے خلاف جنگ شروع کر دی،اس دوران مختلف حربے استعمال کیے،
انہوں نے ایک افسانوی دوست تخلیق کیا،اس سے خیالی باتیں کیں.
کبھی خود اور کبھی دوسروں کی مدد سے ایکسرسائز جاری رکھی.
متعلقہ موضوع کے بارے میں کئی کتابیں پڑھیں.
لمبے لمبے بریسز پہنے.
لیکن جس چیز نے ان کی بیماری کو صحیح معنوں میں ٹھیک کیا وہ انکی کلاس فیلو کا ہمدردانہ رویہ تھا،جس سے وہ شادی کے خواہش مند تھے،
انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد انکی کلاس فیلو نے ان سے کہا کہ اس کے والد صاحب نے ہماری شادی کے لئے ایک شرط رکھی ہے کہ اگر خالد ڈاکٹر بننے کے بعد انکے گھر اپنے پاؤں پر چل کر آیا تو وہ شادی کر دیں گے.
ڈاکٹر خالد نے اس شرط کو چیلنج کے طور پر قبول کر لیا اور اپنی معذوری سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد شروع کر دی.
آخر پڑھائی ختم ہونے کے بعد وہ اپنے قدموں کے سہارے کراچی اس کلاس فیلو کے گھر پہنچے لیکن وہ وہاں موجود نہ تھی،تاہم اس کی دوست نے ایک خط ڈاکٹر خالد کو دیا جس میں لکھا تھا کہ
“یہ شرط میں نے خود گھڑی تھی،اگر میں ایسا نہ کرتی تو شاید کوئی اور چیز تمہیں چلنے کی تحریک نہ دے سکتی”
اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی لکھا کہ
“تم ہمیشہ یہ بات ذہن میں رکھنا کہ تمہاری ٹانگوں میں واپس آنے والی طاقت تمہارے پاس میری امانت ہے،اور تم نے کبھی بھی اس امانت میں خیانت نہیں کرنی”
ڈاکٹر خالد نے لکھا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں اس سے خوبصورت جھوٹ نہیں دیکھا.
مّعذور افراد کی بحالی کے لئے کام:
ڈاکٹر خالد پاکستان میں فزیکل میڈیسن اور ری ہیبلیٹیشن ( Physical Medicine and Rehabilitation) کے بانیوں میں سے ہیں،انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میو ہسپتال لاہور میں ری ہیبلیٹیشن(بحالی) سنٹر قائم کیا،اس وقت سے لے کر اب تک وہ خصوصی افراد کے لئے کام کر رہے ہیں،اور پورے ملک میں اپنے کام کے حوالے سے جانے جاتے ہیں.
قومی ایوارڈ:
ڈاکٹر خالد کو اپنے کام کی وجہ سے کئی ایوارڈ بھی ملے،1992ء میں گورنو پنجاب نے ان کو بگ برادر کا خطاب دیا جو اب ان کے نام کا حصہ ہے،جبکہ 2013ء میں انہیں حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا.
کتابوں کا مصنف:
ڈاکٹر خالد اب تک کئی کتابیں تصنیف کر چکے ہیں،جن میں انکی آپ بیتی ” تیسرا جنم ” سمیت تیسرا پہلو اور در حقیقت نامی کتابیں شامل ہیں.
میڈیا مہم:
ڈاکٹر خالد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے آگاہی مہم چلاتے رہتے ہیں،آج کل سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کے ذریعے موٹیویشنل سپیکر کے طور پروہ جسمانی اور ذہنی بیماریوں کے حوالے سے عوام تک مفید معلومات پہنچا رہے ہیں.