میرا گاؤں دریائے جہلم کے عین کنارے واقع ہے۔جب کہ اراضی دونوں کناروں، جہلم اور گجرات میں ہے۔
بیچوں بیچ دریا ہے جو صدیوں سے یونہی بہتا چلا آرہا ہے۔
ویسے بھی سرائے عالمگیر جغرافیائی، لسانی اعتبار سے جہلم اور سیاسی انتظامی اعتبار سے گجرات کا حصہ ہے۔
دریا کے بلند کنارے پر کھڑے ہوں تو ٹلہ جوگیاں (کوہ بالناتھ) سامنے نظر آتا ہے۔دریا کے کنارے رہنے کی وجہ سے مڈل سکول تک پہنچتے پہنچتے میں اچھا خاصا تیراک بن چکا تھا۔
متعدد بار دریا کے دھارے عبور کرکے پار جا چکا تھا۔ بلکہ ان دنوں کہا کرتا تھا کہ کسی نے اتنی بار وکٹوریہ پل جہلم سے دریا پار نہیں کیا ہوگا جتنی بار میں تیر کر میں پار کرچکا ہوں۔
گاؤں کے لوگ کاشتکاری کے لیے روزانہ دریا پار جاتے تھے جہاں مویشی پالوں کے ڈیرے بھی تھے۔ جن کو صبح و شام کھانا بھی پہنچایا جاتا اور وہاں سے دودھ گاؤں لایا جاتا۔اس مقصد کے لیے ایک بڑی بیڑی (کشتی) تھی جس میں مویشیوں کے علاوہ ڈیڑھ دوسو افراد بھی بیٹھ سکتے تھے۔ ایک بار یہ بیڑی سیلاب میں بہہ گئی اور شکستہ حالت میں بازیاب ہوئی، مرمت کے بعد اس کو مچھوا (چھوٹی کشتی) بنا لیا گیا۔ اس کا مانجھی پاہروال پتن والا کا فضل کریم عرف پھلہ ملاح تھا جسے ہر چھ ماہ بعد بطور سیپ(معاوضہ) اناج دیا جاتا تھا۔
وہ ایک خوشگوار دن تھا، میں دیگر افراد کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا، کچھ لوگ پار بیلے جارہے تھے اور کچھ دریا کے درمیان ایک جزیرے ’’راسب کی ٹلی ‘‘پر جا رہے تھے جہاں سے وہ مویشیوں کے لیے کائی اور جھیخ(امیٹھی گھاس) لاتے تھے۔ یہ دریائی جزیرے عارضی ہوتے اور سیلابی دھاروں سے بنتے بگڑتے رہتے تھے۔مقررہ وقت پر کشتی نے ساحل چھوڑ دیا اور پھلے ملاح نے لڑی (ونج یا بانس) سنبھال لی۔ ظریف نے چپہ(سٹیئرنگ) تھام لیا۔ کشتی ہمیں دریائی جزیرے پر اتار کر آگے بڑھ گئی۔یہ دریائی جزیرہ چاروں طرف سے پانی سے گھرا ہوا تھا، ایک طرف تیز دھارا تھا تو دوسری جانب، گہری، سبز’’ ڈاب‘‘ (ٹھہرا ہوا پانی جو پچاس سے سو فٹ تک گہرا ہوتا ہے)۔ کناروں پر دھلی ہوئی، شفاف چمک دار ریت تھی جب کہ درمیان میں قد آور کائی اور’’ دوب‘‘ (لمبی گھاس) تھی۔ وسط میں ایک چھوٹی مگر گہری سبز جھیل بن گئی تھی۔
میرا معمول تھا کہ میں کوئی کتاب ساتھ لے جاتا اور کسی پرسکون جگہ بیٹھ کر مطالعہ کرتا، اس روز بھی میں ایک کنارے کائی کے ساتھ شفاف ریت دیکھ کرمطالعہ میں مگن ہو گیا۔تھوڑی دیر بعد میں دریا کنارے گیا تو سطح آب پر ریت تیرتی دیکھی، اکا دکا جھاگ کے ٹکڑے بھی نظر آرہے تھے۔ ان علامات کا مطلب تھا کہ پانی چڑھاؤ پر ہے۔اس جزیرے پر آٹھ دس لڑکیوں کے علاوہ ایک اور لڑکا بھی تھا جس کا نام مظفر تھا۔میں نے اسے بلایا اور پانی کی کیفیت بتائی۔ میں نے پانی سے ایک فٹ دور ایک چھڑی گاڑ دی، پانچ منٹ میں پانی وہاں تک پہنچ گیا۔
پھرمیں نے مظفر سے کہا کہ ہم دونوں میں سے کسی کو پار جا کر، گاؤں میں اطلاع دینا ہوگی تا کہ وہ ہمیں یہاں سے نکال سکیں۔ اس نے کہا کہ وہ پار جائے گا۔ اس نے کائی کا تلوا بنایا اور دریا میں اتر گیا۔ میں کنارے تک پہنچنے تک اسے دیکھتا رہا۔اس وقت دریا میں جھاگ کافی بڑھ چکی تھی اور پانی بھی گدلانے لگا تھا۔
میں جزیرے کی طرف لوٹا تو ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ جزیرے پر کوئی درخت نہیں تھا۔ میں نے جزیرے کے بلند ترین مقام کا رخ کیا، کائی کے گٹھوں کو نیم دائرے کی شکل میں کھڑا کرکے اوپر پلاسٹک کا ٹاٹ باندھ کر اسے خیمے کی شکل دے دی اور اندر لیٹ کر مطالعہ میں محو ہوگیا اور اسی دوران میری آنکھ لگ گئی جو ایک مناجات کی آواز پر کھلی۔
گھاس کاٹنے والی تمام لڑکیاں خیمے میں بیٹھی کورس کی شکل میں گا رہی تھیں:
’’لے یارہویں آلے دا ناں تے ڈبی ہوئی تر جائیں گی‘‘
یعنی حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا نام لوگی تو ڈوبنے سے بچ جاؤ گی۔
میں نے باہر نکل کر دیکھا تو عصر کا وقت تھا اور اس بلند جگہ کے علاوہ تمام جزیرہ پانی میں ڈوب چکا تھا اور کسی بھی وقت یہ جگہ بھی زیر آب آسکتی تھی میں نے ان لڑکیوں سے کہا کہ وہ کائی کے گٹھوں کو دوب کے رسوں سے باندھ کر ایک پلیٹ فارم سا بنا دیں اور خود اس کے ارد گرد ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوجائیں، اگر پانی زیادہ ہوگیا تو ہم اس پلیٹ فارم کی مدد سے کنارے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔ میں نے اس پلیٹ فارم کے اگلے سرے پر ایک رسا باندھ دیا تاکہ اس کو تیرتے ہوئے کھینچ سکوں۔ اس وقت پانی نہایت پرشور انداز میں بہہ رہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ اگر یہ پلیٹ فارم پانی میں بہتا رہا تو ہم دس بارہ کلومیٹر زیریں جانب بھلوال غربی یا کھوہارکے کنارے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے۔
پانی میں اگر ایک جھاڑو بھی ڈال دیا جائے اور اس پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر جسم کا بوجھ سہار لیا جائے تویہ تنکے انسان کو ڈوبنے نہیں دیتے۔ شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ’’ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا۔‘‘
اس وقت تک پانی کے لہریں اس جگہ تک پہنچ چکی تھیں۔ پانی کی سطح بتدریج بلند ہورہی تھی۔ابھی پانی گھٹنوں تک پہنچا ہوگا کہ ہم نے کنارے کی جانب سے ایک مچھوا آتے دیکھا۔ اس کو لہروں پر متوازن رکھنے کے لیے درمیان میں ایک شہتیر رکھ دیا گیا تھا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہمارے والی کشتی بقیہ مسافروں کو لے کر پہلے ہی واپس جا چکی تھی۔ یہ مچھوا شیر محمد عرف شیرو ملاح چلا رہا تھا اور اس کے ساتھ کونسلر محمد خان بھی تھا۔ انہوں نے ہمیں استقامت سے کھڑے رہنے کا کہا۔ چند منٹ میں کشتی ہمارے پاس آگئی اور ہمارے سوار ہونے کے بعد کنارے کی جانب بڑھی۔ ہم سب بحفاظت کنارے پر اترے اور جب مڑ کر اس جزیر ے کو دیکھا تو وہاں کسی خشک جگہ کا نام تک نہ تھا اور وہاں وحشی لہریں ناچ رہی تھیں،