تنویر سپرا

تنویر سپرا کے ’’لفظ کھردرے‘‘ تحریر:ڈاکٹر غافر شہزاد

تنویر سپرا ایک ترقی پسند شاعر کہ جس کا تعلق جہلم شہرکے محلہ مجاہد آباد سے تھا۔

یہ عجب بات ہے کہ جہلم جیسا چھوٹا شہر کہ جہاں کوئی خاص انڈسٹری نہیں تھی مگر وہاں ایک صنعتی مزدور شاعر پیدا ہو گیا اور اس نے صنعتی معاشرے کے مسائل کے بارے میں تخلیقی سطح پر توانا اور زور دار لہجے میں شاعری کی اور اپنا مجموعہ کلام ’’لفظ کھردرے‘‘ شایع کیا جسے اردو کے مزاحمتی ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔

جہلم میں ایوب خان کے دور میں صنعتیں اس لیے لگانے کی اجازت نہیں دی گئی کہ اگر ایسا ہو گیا تو یہاں سے پاکستان آرمی میں بھرتی کے لئے فوجی جوان نہیں ملیں گے۔مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں کی نئی نسل نے یورپ میں جا کر اپنے خون سے غیر ملکی صنعتیں چلائیں، اور اپنے محنت کش ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔تنویر سپرا سگریٹ فیکٹری جہلم کے مزدوروں میں سے ایک تھا، وہ سگریٹ فیکٹری میں آئل مین تھا اور شفٹوں میں کام کرتا تھا۔ اس کا ایک شعر دیکھئے؛

دن بھر تو بچوں کی خاطر میں مزدوری کرتا ہوں
شب کو اپنی غیر مکمل غزلیں پوری کرتا ہوں

صدیوں پر پھیلی انسانی زندگی میں نچلے طبقے کے استحصال کی کہانی بہت پرانی اور انسانی جبر کی تاریخ کے ساتھ ہی چلتی چلی آ رہی ہے۔ اس کی شکلیں ضرور تبدیل ہوئی ہیں مگر استحصال کا یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا چلا آ رہا ہے۔ کربلا میں حق و باطل کی جنگ اور استحصال کی ایک نہ بھولنے والی تاریخ ختم کی گئی۔ اردو شاعری اس کے تذکرے سے بھری پڑی ہے۔ اسی طرح کارل مارکس نے جس طرح ذرایع پیداوار اور محنت کشوں کے استحصال کی بات کی، سرمایہ داروں کے خوف ناک کردار کو اجاگر کیا، معاشرے میں اشیا اور قوت خرید، مشین اور محنتانے پر روشنی ڈالی، اس نے ہمارے ہاں ترقی پسند تحریک کو ایندھن فراہم کیا۔ استحصالی طبقے کو گویا زبان مل گئی، اظہار کا سلیقہ اور حق مانگنے کا اعتماد مل گیا۔ 1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں جس طرح ترقی پسند تحریک سے وابستہ لوگوں نے بنیادی انسانی حقوق کے حصول اورسرمایہ داری نظام پر ضرب کاری لگائی، اس نے فکر و خیال کی نئی منزلوں سے آشنا کیا۔ ہمارے شاعروں اور افسانہ نگاروں نے ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ایسے موضوعات پر لکھا جن کے بارے میں اس سے قبل ہمارے ہاں اس انداز سے نہیں لکھا گیا تھا۔ شاعروں میں اہم نام تنویر سپرا کا ہے جس نے ایک جانب تخلیقی معیار، طرز اظہار اور موضوعات کی تخصیص کو اپنایا اور اپنا ایک تشخص بنایا۔ وہ جدید غزل کے حوالے سے شکیب جلالی سے متاثر تھا مگر اس نے اپنے لیے الگ موضوعات کا انتخاب کیا اور پھر عمر بھر اس خاص نقطہ نظر کو اپنی شاعری میں پیش کیا، ایسے شاعروں کو عام طور پر نظریاتی شاعر یا پروپیگنڈا شاعر قرار دے کر اردو شاعری کی صف سے باہر نکال دیا جاتا ہے مگر تنویر سپرا کے ساتھ ایسا نہیں کیا جا سکا، اس کی وجہ اس کا تخلیقی وجدان اور طرز اظہار میں احتیاط اور توازن تھا جو اس نے آخر دم تک قائم رکھا۔

جہلم کی ادبی تاریخ میں مزاحمتی شاعری کی تحریک اگر چہ درشن سنگھ آوارہ سے آغاز ہوتی ہے اور اس کے اثرات جہلم کے تقریباً سبھی شاعروں کے ہاں محسوس کیے جا سکتے ہیں مگر تنویر سپرا نے جس طرح صنعتی معاشرے کے خلاف اپنے ردعمل کا براہ راست اظہار کیا، ایسی کوئی مثال جہلم تو کیا اردو شاعری میں کہیں نہیں ملتی۔ اس عہد کے سبھی ترقی پسند شاعروں نے کچھ نہ کچھ اثرات ترقی پسندی کے قبول کیے مگر جس طرح تنویر سپرا نے اپنے تخلیقی وجدان کو ایسے موضوعات کے لئے وقف کیا، ایسا کہیں اور نہیں ملتا۔ یہی اس کی انفرادیت اور پہچان ہے۔

تنویر سپرا کو مشاعروں میں جن لوگوں نے سن رکھا ہے، وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ جب وہ اپنی شاعری سناتے تھے تو ان کا دھم دھڑک والا لہجہ ان کی شاعری کو اور بھی پر اثر بنا دیتا تھا۔ وہ شعر پڑھنے اسٹیج پر آتے تو ان کو پسند کرنے والے ان کے شعرپڑھنے کی توانائی کے ساتھ چلتے اور تمام سامعین ایک خاص کیفیت میں چلے جاتے۔ وہ دھان پان جسم کے مالک ایک درمیانے درجے کی صحت رکھنے والے شاعر تھے مگر جب کلام سنانے لگتے معلوم نہیں کہاں سے ان میں بجلیاں بھر جاتیں۔ جو جادو ذوالفقار علی بھٹو کی تقریروں میں جاگتا تھا، ویسا ہی کچھ مشاعرے میں شاعری سناتے ہوئے تنویر سپرا سامعین پر کر دیتے۔وہ اپنی سچی اور کھری شاعری اپنے صادق لہجے کے ساتھ یوں سناتے کہ سیدھی دلوں میں اترتی جاتی، یہ کمال انہی کو حاصل تھا۔

جہلم سے زیادہ اُن کی مقبولیت لائل پور(موجودہ فیصل آباد) اور جنوبی پنجاب کے شہروں میں تھی۔ وہ کئی کئی دن تسلسل سے ان شہروں میں مشاعرے پڑھتے اور کئی ہفتوں بعد گھر لوٹتے۔ جب تک جہلم میں رہتے، ان شہروں سے ان کے چاہنے والوں کے خطوط آتے رہتے جو ان کے اگلے دورے کے منتظر رہتے۔

جہلم کی نجی محفلوں میں بھی وہ ایسے ہی بلند آہنگ، سچے اور کھرے انسان تھے۔ جو بات کہنا ہوتی،بغیر کسی لگی لپٹی کے منہ پر کہتے، انہیں اس بات کا ڈر نہیں ہوتا تھا کہ سننے والا ناراض ہو جائے گا۔اگر وقتی طورپر ناراضی ہوتی بھی تو دوست ان کے اس لہجے کو نظر انداز کر دیتے اور وہ بھی منافقانہ روش اپنائے بغیر دوستوں سے تعلقات قائم رکھنے میں آخر دم تک کامیاب رہے۔آخری برسوں میں ایک حادثے اور بعد ازاں بیماری کے باعث جس طرح انہوں نے دن گزارے، یہ ان کے لئے اس حوالے سے بھی آزمائش تھی کہ وہ جمہوریت جس کے آنے کے خواب انہوں نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر دیکھے تھے، وہ کبھی پورے نہ ہو سکے۔

انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اس دور کے نظریاتی رہنماؤں اور دانش وروں کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے، مفاد پرست بنتے اور وقت کے ساتھ خود کو ڈھالتے ہوئے، اپنی زندگی کے آخری برسوں میں دیکھا۔تنویر سپرا کی اپنے نظریات کے ساتھ کمٹمنٹ پر کبھی کسی کو شک نہیں ہوا اور وہ مرتے دم تک اسے نبھاتے رہے۔ انہوں نے کبھی پیپلز پارٹی سے ذاتی فائدے یا سہولیات حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ان کے دوستوں کے ساتھ ان کا تعلق اور دوستوں کے ساتھ ان کی محبت آخر دم تک قائم رہی۔انہوں نے ایک عہد کو متاثر کیا۔ ان کی شاعری کے اثرات سے جہلم کے شعرا میں سے کوئی نہیں بچا۔اردو غزل کے مزاج کو جس کھردرے پن سے تنویر سپرا نے آشنا کیا، وہ اس کے تخلیقی فن کا ہی اعجاز تھا۔تنویر سپرا کو غزل کے اس کھردرے پن کا احساس تھا، اسی لیے تو وہ اپنی شاعری کو نازک سماعتوں پر بار قرار دیتا تھا۔

تنویر سپرا کے شعری موضوعات صنعتی معاشرہ اور اس کی زد میں آنے والوں کی احساساتی کیفیتوں کا براہ راست اظہار سے متعلق ہیں۔کہیں کہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جیسے یہ اشعار ایک نعرہ یا سٹیٹمنٹ بن گئے ہیں، مگر جو قاری تنویر سپرا کے شعری مزاج سے واقف ہے، اسے یہ اشعار اپنے اندر ایسی توانائی لیے ہوئے محسوس ہوتے ہیں کہ اس کی رگوں میں خون کی حرکت اور حرارت تیز تر ہو جاتی ہے۔یہ براہ راست لہجہ اسے حق اور حقوق کی آواز اٹھانے پر مجبور کرتا ہے۔

اسے یوں لگتا ہے جیسے یہ اس کی بات تنویر سپرا نے شعری زبان میں کی ہے۔تنویر سپر کی غزل کو اگر اپنے عہد کے حبیب جالب کی ترقی پسند شاعری کے مقابل رکھ کر دیکھا جائے تو تنویر سپرا کی فنی عظمت اور تخلیقی صلاحیتوں کا بھرپور احساس ہوتا ہے۔ اس لیے کہ تنویر سپرا نے حبیب جالب جیسا براہ راست لہجہ اختیار نہیں کیا۔ غزل کے پیرہن میں غریب، پسے ہوئے مفلوک الحال اور محروم طبقے کی آواز کا اظہار نہایت ہی مشکل ہے اور بے پناہ تخلیقی صلاحیتوں کا متقاضی ہے۔ کرافٹ کے حوالے سے بھی اگر تنویر سپرا کی شاعری کا جائزہ لیں، تو اس کے ہاں کسی مصرع میں ایک لفظ ادھر سے ادھر نہیں کر سکتے۔ہر لفظ نگینے کی طرح اپنی جگہ پربیٹھا ہوا، الفاظ کا انتخاب ایسا کہ اس کے دھم دھڑک والے لہجے کو اور بھی موثر بناتا ہوا، صوتی ردہم ایسا کہ دلوں کی دھڑکن کو تیزتر کرتا ہوا، اپنے اندر بے پناہ توانائی لیے، سننے والوں کی قلبی کیفیت کو تبدیل کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ خاص طور پر جن لوگوں نے تنویر سپرا کی شاعری اس کے اپنے دبنگ لہجے میں سن رکھی ہے، ان کے کانوں میں اس کی شاعری خواندگی کے وقت بھی ویسا ہی تاثر پیدا کرتی ہے۔

تنویر سپرا نے ایک جانب اگر روایتوں سے بغاوت کی بات کی ہے تو دوسری جانب ترقی پسندی اور بدلتی ہوئی معاشرت میں محروم طبقوں کے مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے۔وہ روایت کو روایتی انداز سے مسترد نہیں کرتا بل کہ اس کا اظہار وہ ترقی پسند انداز سے کرتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ جدید زندگی کو اپنی تمام تر قباحتوں کے ساتھ قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہیں وہ ایک سخت گیر ناقد کی طرح جدید زندگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر کڑی گرفت بھی کرتا ہے۔وہ مقافات عمل کا قائل ہے، اس دنیا میں ہی حساب کتاب پر یقین رکھتا ہے، اسی لیے تو وہ کہتا ہے کہ جو شخص عورت کو کھلونا سمجھتا تھا، اس کو داماد بھی ویسا ہی ملا ہے۔ وہ خود بھی مزدور ہے اور اپنے باپ کے بھی مزدور ہونے پر فخر کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ نسلیں گزر جاتی ہیں مگر تبدیلی نہیں آ رہی۔ مزدور کی محنت سے جس طرح صنعت کار اپنی آسائشوں کا بندوبست کرتا ہے، اس کے بارے میں جگہ جگہ وہ اظہار کرتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ انسانی رشتوں کا بہت قائل ہے، اسے رشتوں کا احترام کرنا آتا ہے، اس کے ہاں بہن، بھائی، ماں باپ، داماد، جیسے قریبی تمام رشتوں کا ذکر ملتا ہے۔

وہ اپنے عہد کے مزدوروں کی ایک مشترک آواز بن کر اپنی شاعری میں ابھرتا ہے۔ وہ ایک جانب لوگوں کی نگاہوں میں مونا لیزا کے تبسم کا ذکر کرتا ہے تو دوسری جانب مصور کی آہوں کو بھی پیش کرکے معاشرے کے تضاد کو پیش کرتا ہے۔ وہ نحیف، کمزور اور بے آوازوں کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔ مصلحت کی تیغ اس کے وجود کو لاکھوں وجودوں میں کاٹ دیتی ہے۔ ایک بچے کو بدخطی کی سزا ملنے پر اس کے دوات کو کاغذ پر الٹ کر اس کے شدید رد عمل کو پیش کرتا ہے۔ مگر جب کوئی مغلوب ہو کر اس کے قدموں میں گرتا ہے تو اس کا ضمیر اس کی حفاظت پر ڈٹ کر اس کے عالی مرتبت ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ماضی کو بانجھ عقیدوں کی دیواریں قرار دے کر انہیں توڑ کر ان سے باہر آنے کا اعلان کرتا ہے۔اس کی شاعری اعلیٰ اخلاقی قدروں کی شاعری ہے جہاں سب انسان برابر کی سطح پر زندگی کی آسائشوں کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔وہ اپنی شاعری کو افلاکی نہیں خاکی قرار دیتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ اس کی شاعری اپنا رزق افلاک سے نہیں، خاک سے حاصل کرتی ہے۔احمد ندیم قاسمی نے اسے ’’ایک غیر مبہم نقطہ نظر اور ایک اعلانیہ وابستگی کا شاعر‘‘ قرار دیا ہے۔وہ مزدور کو خود ترحمی کا شکار نہیں ہونے دیتا بل کہ اپنا حق آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مانگنے کی ترغیب دیتا ہے۔

وہ اپنے شعروں میں تضادات کو نمایاں کر کے معیشت اور معاشرت کےبے چہرہ ہونے کی تصدیق کرتا ہے۔اس نے صدیوں سے مروجہ اور قبول عام بیانیوں کو توڑا کر نئی تعمیر کی ہے۔وہ ایک توانا لہجے، مضبوط کرافٹ، غیر مبہم تصورات اور تخلیقی اظہار کا نمائندہ شاعر ہے۔

Ghafer Shehzad
نوٹ: صاحب تحریر فن تعمیر میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں،معروف شاعر ہیں ،جہلم کے نواحی گاؤں کنتریلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور لاہور میں مقیم ہیں،

اپنا تبصرہ بھیجیں