دریائے جہلم کے بارے میں یہ تحریر مورخ جہلم انجم سلطان شہباز نے لکھی ہے.
اس نے جب حسین وادیاں دیکھیں تو اس کا جوش و خروش بڑھ گیا اور نوخیز چٹانوں سے اٹکھیلیاں کرتا، گھاٹیوں میں گھات لگاتا میلوں دور مظفر آباد کے قریب جا پہنچا۔ یہاں مظفر آباد کی طرف سے آکر دومیل کے مقام پر ایک حسین ندی کشن گنگا عرف نیلم نے اس کا جوش دیکھا تو وہ بھی اس میں ڈوب گئی۔
مزید پڑھیے: دریائےجہلم بہتا رہے گا۔قسط نمبر 1
یہ دونوں شیر و شکر ہو کرآگے بڑھے۔ یہاں سے نلوچی بازار سے ہوکر یہ دریا جہلم پارک سے گزرا۔ حسین آباد کے خم سے مظفر آباد کوہالہ روڈ اس کے ساتھ ہو گیا۔ کچھ آگے بڑھا تو ایک اور الہڑ ندی کنہار نے آکر اس میں چھلانگ لگا دی۔ یہ ندی ملکہ پربت کی بیٹی تھی اور کچھ عرصہ جھیل سیف الملوک میں بھی ٹھہری تھی جس کی وجہ عشق اس کی گھٹی میں تھا۔ پلہیر کے پل سے آگے بڑھ کر کومی روڈ کے پاس چند اور ندی نالے اس میں شامل ہوئے۔چتر کالس سے مزید آگے جا کر دو اور ندیاں اس میں شامل ہوئیں۔ جس سے آگے برسالہ کا مشہور ڈاک بنگلہ آیا اور پھر کوہالہ سے کچھ پہلے ایک اور طویل قامت ندی جہلم کے تیرِ نظر کا شکار ہوگئی۔ جب کہ کوہالہ پل سے پہلے ایک اور ندی اس میں شامل ہوئی۔دریائے جہلم اب ناگ کی طرح بل کھاتا، پھنکارتا اور جاگ اڑاتا آگے ہی آگیبڑھتا گیا،
کوہاٹی کی طرف سے ایک اور ندی اس میں گری اور پھر کھڈ کس(باغ) کا سارا پانی بھی دریائے جہلم نے پی لیا۔ یہاں تک کہ دریائے محل بھی اس میں شامل ہوگیا۔اسلام نگر سے آگے رتی گلی کی سمت سے آنیوالی ایک اور ندی اس میں آن ملی۔ آزاد پتن سے پہلے راولپنڈی روڈ کی جانب سے دریائے گن اس میں ملا اور پھر آزاد پتن کہوٹہ روڈ اس کے متوازی چلنے گا۔آسیبی قلعہ سے آگے سہنسہ،راولپنڈی روڈ آن ملا۔
ہولار سے پہلے ایک اور ندی اس میں شامل ہوئی۔یہیں دریائے جہلم کی معاون شاخ بھی اس میں مل گئی جو برسالہ کے علاقوں سے پانی لے کے آئی تھی۔پھر تو ان معاون ندیوں کا سلسہ شروع ہو گیا اور وہ دائیں بائیں سے آ آ کر اپنی جان اس پر نچھاور کرنے لگیں۔یہ بل کھاتا، خم ڈالتا بڑھتے ہوئے دان گلی تک آ پہنچا۔جس سے آگے جلم ندی کا پانی اس میں شامل ہوا۔ یہاں تک کہ وہ میرپور کے قریب آن پہنچا۔
دریائے پونچھ اپنے معاون ندی نالوں کا پانی سمیٹ کر خادم آباد کے قریب کھڈ دریا کا پانی بھی لیتا ہے اور پھر منگلا جھیل میں مدغم ہوجاتا ہے۔اس سے تھوڑا آگے چومکھ کا مقام ہے جو اب منگلا جھیل کا ہی ایک حصہ بن چکا ہے۔منگلا جھیل کے گرد خادم آباد، کھاڑک، پنیام، سملوٹھہ، پوٹھہ شیر، پوٹھہ بنگش، متیال گوجر، چکسواری، ڈڈیال، اسلام گڑھ، اندرہ کلاں، لدھڑ،بجاڑ، سیاکھ، ڈھانگری، روملی، چھجہ، سناٹھہ، کاکڑہ ٹاوٗن اور نیو میرپور سٹی وغیرہ کے مقامات ہیں۔
جہلم جوش جنوں میں بے شمار ندیوں کاپانی خون کی طرح پی گیا۔ ایک اور بات بھی ہے کہ جہلم کا حسن دیکھ کر پتا نہیں کتنی ہی حسین ندیاں اس کی آغوش میں سما چکی تھیں۔ اس کی بپھری جوانی کو لگام دینے کیلیے اس کی شادی منگلا جھیل سے کردی گئی اور اس کے ہاں ایک بیٹی نہر اپر جہلم نے جنم لیا، اس نے گجرات کی سوہنی کا قصہ سنا تو وہ اس کے علاقے میں جا پہنچی اور اس نے اس سارے علاقے کو شاداب کردیا۔
دوسری جانب دریائے جہلم منگلا جھیل سے اجازت لے کر نکلا اورمنگلا، شیخوپورہ، منگولہ، دلیال، مغل آباد، پنڈ رجوال، پسوال، آئمہ افغاناں، گھٹیالی، چک دولت، کڑی افغاناں کے پاس سے گزرا اور اس نے ایک جزیرہ تشکیل دیا جس میں وچلہ بیلہ، لنگر پور بیلی، مخدوم پور بیلی اور منوہر پور بیلی واقع ہے۔ پنڈ رتوال، چونترہ، کھرالہ، کالا دیو، چک خاصہ اور ٹاہلیانوالہ کے ساتھ سے گزر کر پیر ہرا اور پھر جہلم شہر کے ساتھ مسجد افغاناں، سلیمان پارس اور الطاف پارک کے ساتھ سے ہو کر جہلم کینٹ پہنچتا ہے جہاں سے سعیلہ، عید گاہ، بگا، بیلی پاہروال، نوگراں، کوٹ بصیرہ پہنچتا ہے۔ نوگراں کے مقام پر اس میں جہلم کا تندو تیز برساتی نالہ گھان شامل ہوجاتا ہے۔ نوگراں سے آگے جنگو رڑیالہ، سنگھوئی، طور، نتھوالہ،نواں لوک، چوٹالہ، خورد اور دارا پور آتا ہے۔ دارا پور سے پہلے اس میں نالہ بنہا کا پانی شامل ہوتا ہے۔
دوسری جانب توتیاں، رائیاں، ڈھل، ککروٹ، نوتھیہ قریشیاں، چھپر کوٹیاں، سرائے عالمگیر، مہے کلاں، چک نتھا، خانپور، کھمبی، کستیلہ، بھروٹ، شاہ مدار، نریال، پاہروال، مالو، دولو، نروال، کھدریالہ، کھرکا، چک سکندر، گوڑھا جٹاں، بھلوال غربی، کھوہار، فتح پور، ڈھوری، پوران، چنگس، ورینہ، رسول اور مونگ کے مقامات آتے ہیں۔
پوربی کنارے پر علی بیگ سے لے کر ہیڈ رسول تک متعدد برساتی نالے؛ جابہ، نوتھیہ قریشاں کا کس، مہے کلاں کا کس، پاھروال کا کس، نروال، گڑھا جٹاں، بھلوال غربی، کھوہار، فتح پور ڈھوری، پوران اور چنگس ورینہ کے کس کھاریاں پبی سے ہوتے ہوئے، نہرا پر جہلم کے نیچے سے گزر کر دریائے جہلم میں گرتے ہیں۔ ان کو نہر کے نیچے سے گزارنے کے لیے پختہ سرنگ نما راستے (ڈاٹ)بنائے گئے ہیں۔
رسول بیراج میں اس کی دوسری بیٹی لوئر جہلم نے جنم لیا جو ہیر کے قصے سے متاثر ہوکر سرگودھا سے جھنگ کی جانب روانہ ہوگئی۔
رسول سے آگے ملک پور، مڑیالہ، شاہ کمیر، بھائی لوڈن، جلالپور شریف، سگھر پور، اور اس آگے وکٹوریہ پل آتا ہے۔ پنڈی سیدپور، پنڈ دادنخان، لنگر اور کوٹلہ سیداں سے خوشاب میں داخل ہوتا ہے۔ سندرال، تھاتھی کلرانی اور منگور،جلالپور، ہموکا، گروٹ،تیتری، لغاری، ٹھٹھی کلاں، جوڑا کلاں، ستھ شہانی،احمد آباد جنوبی،بلو، ماڑی شاہ سخیرہ، تہماں والا اور پھر ضلع جھنگ میں داخل ہوجاتا ہے۔ واسو اور اٹھارہ ہزاری سےآگے تریموں کا مقام ہے۔تریموں (جھنگ)کے مقام سوہنی کو مار کر اس کے عشق کو زندہ کرنے والا دریا چناب جسے، پنجابی میں ’چنہاں‘ اور سنسکرت میں ’چندر بھاگا‘ کہا جاتا ہے، جہلم کی کشادہ باہوں میں سما جاتا ہے۔ یہاں سے نکورہ، حکیمے والا، گڑھ مہاراجہ، احمد پور سیال، سمندوانہ، رنگ پور، سدھر پتن، (کبیر والہ) پہنچتا ہے۔ دوسری جانب چک ماہنی، عمر پور اورنندالہ کے مقامات ہیں۔ مظفر گڑھ ضلع میں بستی پیر جہانیاں، بستی جلال آباد، جگت پور اور خان گڑھ آتے ہیں۔مکھن بیلہ، موچیوالی، شہر سلطان، علی پور، سیت پور کے مقامات کا نظارہ کرتا ہے۔
دریائے جہلم اپنی منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے دو، دو آبوں کو تشکیل دیتا جن میں سے ایک چینت دو آب (چج دوآب) اور دوسرا سندھ ساگر دو آب۔ پنجند (پانچ ندیاں) مقام پر ستلج کا دریا بھی اس کے ہم آغوش ہوجاتا ہے،
یہاں سے آگے مٹھن کوٹ کا مقام ہے جہاں دریائے سندھ جو رشتے میں دریائے جہلم کا بھائی ہے اس میں مل جاتا ہے۔ دریائے سندھ کے مختلف مقامات پر مختلف نام ہیں کہیں یہ دریائے کابل کہلاتا ہے، کہیں دریائے اٹک اور کہیں دریائے نیلاب۔ کوٹ مٹھن کے مقام سے چاچڑاں شریف، روجھان، گدو،سکھر، گھمرو گوٹھ،نوڈیرو،گڑھی خدابخش، لاڑکانہ، گوٹھ مجاور لاشاری، موئن جودڑو،مٹھیانی،جتوئی،دادو،کرم پور، سیہون،ہالہ، مانجھو،مٹیاری، پٹارو، حیدر آباد، وسی ملوک شاہ، ملا کاتیار،جھرک، سے ہو کرٹھٹھہ میں داخل ہوتا ہے۔گوٹھ رئیس محمد قاسم، گوٹھ قیصرانی اور پھر کھارو چہان کے مقام سے یہ عظیم الشان دریا سمندر میں اتر کر امر ہوجاتا ہے۔
کناروں میں رہنے والا دریا بے کنار ہوجاتا ہے۔ جیسے قطرہ سمندر میں مل کر سمندر ہو جاتا ہے یہ بھی سمندر ہوجاتا ہے مگر اس کی پرانی مہربان ہوائیں اس کو نیا جنم دینے کیلیے اس کے قطرے اپنی سانسوں میں سمو کر ایک بار پھر ہمالیہ پہنچ جاتی ہیں اور وہاں سے بارش کے آبشار جہلم کی رگوں میں خون کا کام کرتے ہیں،
ختم شد۔۔۔۔