دریائےجہلم

دریائےجہلم بہتا رہے گا۔ قسط نمبر 1

دریائے جہلم کے بارے میں یہ تحریر مورخ جہلم انجم سلطان شہباز نے لکھی ہے.

دریائے جہلم نے ویری ناگ کی آغوش میں آنکھ کھولی۔اس کے نام کا اندراج ’رگ وید‘ کے رجسٹر میں ’’وتاستہ‘‘ ہوا۔ ویری ناگ نے اس کی پرورش و پرداخت شروع کی مگر یہ بچپن ہی سے نہایت شریر اور کھلنڈرا تھا۔ اس لیے کھیلتا کودتا سری نگر سے نکل کر بانڈی پورہ کے مقام پر ’وولر‘ کی آغوش میں جا پہنچا۔وولر کی جھیل بھی مامتا سے لبریز تھی اس نے اسے گود لے لیا۔ وتاستہ سے اس کا نام’ویداستہ‘ ہوگیا جب کہ اس کا عر ف’بتاستہ‘ بھی مشہور تھا۔
مزید پڑھیے: دریائےجہلم بہتا رہے گاآخری قسط

ایک بار کچھ سادھو سنتوں نے اس کے ٹھنڈے میٹھے پانی سے اپنی پیاس بجھائی تو بے ساختہ اس کو ’جلہم‘ قرار دے دیا۔ پھر تو اس کے کئی نام پڑنے لگے، کسی نے اس کو ’ویہتہ‘ کہا تو کسی نے ’بیہت‘، آریاو?ں نے اسے’ہائیڈاسس‘ اور ایک یونانی فلاسفر نے اسے ’بیداسپس‘ کا نام دیا۔ پھر شرف الدین نے کہا کہ نہیں یہ ’جمد‘ اور ’دین دان‘ ہے۔ یونانیوں نے جب اس دریا سے ملاقات کی تو انھیں سمندری دیوتا تھامس اور اس کی بیوی الیکٹرا یاد آگئی اور انھوں نے اس کو ان دونوں کا بیٹا قرار دے کر ’ہائیڈ اسپس‘ (ایک مافوق الفطرت دیوتا)کا خطاب دیا۔دریائے جہلم کو کشمیری زبان میں’’دینور‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ہند ی زبان میں وتستا ہے۔ فرانسیسی سیاح برنیر نے اسے Bhit(بہت یاوتھ) لکھا ہے لیکن درست’دیتور‘ ہے۔

رگ وید نے اس کو سپت سندھو یعنی سات دریاو?ں میں سے ایک اہم دریا قرار دیا۔ پنجاب یعنی ’’پنج آب‘‘ کے پانچ دھاروں میں سے ایک عظیم دھارا جہلم ہے۔

کہتے ہیں سونا براری(پیر پنجال) کی چوٹیوں کے دامن میں، ویری ناگ جسے کشمیری میں دیری ناگ کہا جاتا ہیکا نام پہلے ستی سر تھا اور اس کے گہرے نیلگوں حسن کی وجہ سے اسے ’نیلہ ناگ‘ بھی کہا جاتا تھا۔ ایک راکھشس جل اوبھو (پانی کا بھوت) نے ستی سر کا بے پناہ حسن دیکھا تو وہ اس کے دل کی گہرائیوں میں جاکر براجمان ہوگیا۔ تب بادل اور گرج کے دیوتا نے اسے ڈرایا دھمکایا مگر اس پر ان کی دھمکیوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ برہما کے پوتے کشیپ رشی کو علم ہوا تو اس نے دیوتاو?ں سے دعا کی جس کے نتیجے میں برہما، وشنو اور شیو جلال میں آگئے۔ انھوں نے جل اوبھو نامی اس راکھشس کو نکالنے کے لیے بڑے زبردست وار کیے جس سے ستی سر کے پہلو میں بارہ سوراخ بھی ہوگئے اور ان کو ’بارہمولہ‘(بارہ مورا) کہا گیا۔ ستی سر کے بدن سے پانی خون کی طرح بہہ نکلا اور جلد ہی اس کی تہہ نظر آنے لگی۔ ستی سر کا نام ’کاسمیرہ‘ پڑ گیا کیوں کہ اس کا پانی ہواگیا تھا۔ جل اوبھو نے پہلے تو برفانی تودوں میں چھپنے کی کوشش کی مگر جب بس نہ چلا تو وہ پانی کی چادر میں چھپ کر سری نگر جا پہنچا، وہاں اس نے سر نکالا ہی تھا کہ اسے کچل دیا گیا۔ دوسری جانب اب ستی سر کو نیلہ ناگ اور نیلہ کنڈ کہا جانے لگا۔ اس نے اپنی حفاظت کے لیے بید کے درختوں کی ایک فصیل پال لی اور اپنا نیا نام ’’ویری ناگ‘‘ رکھ لیا۔

کہتے ہیں کہ وادی کشمیر شروع میں پانی کی گہری اور وسیع جھیل تھی۔ اس کے علاوہ یہاں گردو نواح میں اور بھی جھیلیں موجود تھیں۔ جل اوبھو کا مطلب ہے’’پانی کا پہاڑ‘‘اسے برف کا تودہ یا گلیشیر بھی کہہ سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ زبردست زلزلوں نے ان پہاڑوں میں شگاف ڈال دئیے ہوں اور پانی نے ایک دریا کی صورت میں بہنا شروع کردیا ہو۔ کیوں کہ تاریخی ریکارڈ کے مطابق 26 جون1828ء اور20 مئی 1885 کو یہ علاقہ ایسے زلزلوں سے دوچار ہوچکا ہے۔ اور اصل حقیقت بھی یہی لگتی ہے کہ قبل مسیح میں کسی وقت کوئی خوفناک زلزلہ نمودار ہوا ہو جس سے یہ دریا وجود میں آیا اوراس واقعہ کو ہندی مصنّفین و مؤرخین نے افسانوی رنگ دے کر دیومالائی داستان بنادیا۔ پانی کے شگاف ہونے سے ’کاس میرا‘ یعنی پانی ہوا ہوگیا کی اصطلاح بعد میں لفظ ’کشمیر‘ میں ڈھل گئی۔

دریائے جہلم ویری ناگ سے نکل کر پیر پنجال میں شمال مغرب کی طرف بڑھنے لگا۔کھنابل (کانابل)سے بارہ مولا(بارہ مورا) کی طرف دریائے جہلم 165 کلومیٹر کافاصلہ طے کرکے سری نگر کی طرف جھیل ولر میں داخل ہوا۔ بانڈی پورہ کی اس حسین و پرشباب جھیل ’ولر‘ نے جس کی زلفیں دو سو ساٹھ مربع کلومیٹر کے علاقے میں پھلی ہوئی تھیں، اسے اپنے حسن کے جال میں پھانسنے کی کوشش کی۔ دریائے جہلم نے اپنے پانی سے اس کا دامن بھر دیا اور یوں یہ جھیل لبا لب لبریز ہوکر’مہاپدم سر‘ کے نام سے مشہور ہوئی جس کے درمیان کشمیر کے بادشاہ زین العابدین (بڈ شاہ) نے ایک مصنوعی جزیرہ بھی بنوایا۔ اس دوران جہلم شباب کی دہلیز پہ قدم رکھ چکا تھا اور اب اس کی نگرانی کرنا اور سنبھالنا وولر کے بس کی بات نہیں تھی وہ اس کی آغوش سے نکلا اور جھیل سے آگے اڑتالیس کلومیٹر تک پچاس میٹر تک نیچے گر گیا۔ جبکہ اس سے آگے اڑتالیس کلومیٹر تک یہ سترہ میٹر تک مزید گرا اور بارہ مولہ تک تقریباً اوسط مقدار یہی رہی۔سری نگری کے مقام پر اس میں ڈھوڈ گنگاندی بھی شامل ہوجاتی ہے۔ یہ ندی بھی پنسال کے سلسلہ کوہ سے آتی ہے۔ سری نگری سے زیریں جانب شادی پور کے مقام پر دریائے سندھ اس کے بالکل متوازی ہوجاتا ہے۔ دریائے جہلم کے بیشمار معاونین ہیں جن میں دریائے سندھ سب سے بڑا ہے۔ دریائے جہلم میں انشر، ڈل اور منسبل جھیلوں کا پانی بھی شامل ہوجاتا ہے۔

دلر جھیل تک یہ دریا متوازی بہتے آتے ہیں۔ ولر جھیل سے نکل کر سوپورکے مقام سے دریائے جہلم اپنا رخ تبدیل کرنا شروع کرتا ہے اور جنوب مغرب کی طرف بارہ مولہ تک پہنچ جاتا ہے اور اس دوران پوہرو دریا بھی اس میں ضم ہوجاتا ہے۔ جو وادی لولاب سے بہہ کر آتا ہے دریائے جہلم کے مشرقی معاونین وشوا، ریمبارا، ڈوڈگنگا، رام شی، سک ناگ اور فیروز پورہ ہیں۔

بارہ مولہ سے ڈیڑھ کلومیٹر زیریں جانب دریائے جہلم کشمیر کی سرسبز و شاداب وادی کو الوداع کہہ کر قاضی ناگ کے سلسلہ کوہ کی ایک تنگ گھاٹی سے جھاگ اڑاتا ہوا گزرتا ہے۔ یہ سلسلہ پیر پنجال کی ایک شاخ ہے۔بارہ مولہ میں ایک سات محرابی پل عہد قدیم میں بنایا گیا تھا۔پیر پنجال کی یہ شاخ کوہالہ سے ایک کلومیٹر جنوبی سمت واقع ہے۔مظفرآباد کے مقام پر کشن گنگا دریائے جہلم میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ ہزارہ کی طرف سے دریائے کنہار بھی چند کلومیٹر زیریں جانب اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ دریا برائے نام ہی ہے۔ کھنابل سے بارہ مولہ تک دریائے جہلم پر بہت سے پل ہیں جبکہ بارہ مولہ سے دو میل تک جہاں کشن گنگا اس میں شامل ہوتا ہے زیادہ پل نہیں ہیں۔ یہاں دریاکے مختلف حصوں میں کشتی رانی بھی ہوتی ہے۔

اسلام آباد اور بیج بہارہ کے درمیان جہلم کا پانی شفاف ہے اور دریا کی تہہ ریتلی ہے۔ جس پر ٹوٹے ہوئے برتنوں کے ٹکڑے،گھونگھے اور سیپیاں پائی جاتی ہیں چند ایک مقامات پر دریا کی تہہ پتھریلی بھی ہے۔ مگر یہ پتھر چھوٹے اور گولائیوں والے ہیں۔

پام پور کے مقام سے دریا کا پانی گدلا ہوجاتا ہے پیندا نظر نہیں آتا۔ پام پوراور پانڈو چک کے درمیان پتھروں کا پل بنا ہوا ہے۔

سری نگر کے مقام پر دریائے جہلم کی چوڑائی ستر سے چھہترمیٹر ہے اور گہرائی چھ سے بارہ فٹ تک ہے۔دریائے سندھ کے جنکشن سے زیریں جانب سمبل کے مقام پر دریائے جہلم کی اوسط گہرائی چودہ فٹ ہے۔بارہ مولہ اور سوپور کے درمیان دریا کی تہہ صاف ہے اور اس پر گھونگھے اورسیپیاں وغیرہ ہیں۔

اگر اس کے سفر کا جائزہ وولر سے لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وولر کو سیراب کرکے جہلم سوپور، تکیہ بل اور پھر ’توحید باغ‘ پہنچا۔ رہوار شوق مہمیز ہو چکا تھا اور کتنی ہی ندیاں اس کی باہوں میں سماتی چلی گئیں۔ یہ ’تلی بل‘ سے ’کرتار گڑھ پہنچا اور مسجد ابو بکر کے پاس سے گزر کر مسجد دو باغ کے پاس پہنچا تو ’پوہرو‘ کے دریا نے اپنی ہستی اس کے جوش میں فنا کردی۔یہاں سے یہ لوگری وال پورہ اور پھر شوگا پورہ پہنچا۔یہاں سے ایک حسین وادی کو گھیرنے کیلیے جہلم نے اپنی باہوں کا حلقہ بنالیااور شادی پور کے پاس سے گزر کر جہامہ کا محاصرہ کرلیا اور پھر نواگام کی طرف بڑھا۔یہاں سے دیوان باغ کے گلنار پارک میں پہنچا اور پھر ’آزاد گنج‘کی راہ لی۔خان پورہ سے بارہ مولا پہنچا تو شین پورہ کی ندی اس میں ڈوب گئی۔ منج گرام، ناگ ناری اور گنتامولہ کے سے قدرے ہٹ کر گھوم گیا اور پوشوان کالونی جا پہنچا۔

اس سے آگے Warikhah Chahlaسے نکلا تو اُڑی ہائیڈل پراجیکٹ میں اس کی رگوں سے توانائی کشید کرنے کی کوشش کی گئی۔ کینچن اورا سلام آباد داچھنا سے بگناہ نور خان اور نالوسہ پہنچا،بونیار سے آہن گر پورہ اور پھر ڈھانی سیداں کا مقام آیا۔اس سے آگے اسے ایک گوردوارہ Param Pillanنظر آیا۔جس سے آگے حاجی پور کی ندی نے اپنا آب اور اپنی تاب اس کے حوالے کردیے۔ اس سے آگے بھی کتنی گمنام اور کم سن ندیاں اس میں اتر گئیں۔ اڑی کی بل کھاتی سڑک نے اس کا دور تک ساتھ دیا اور پھر سری نگر مظفر آباد روڈ اس کے ساتھ ساتھ دوڑتی رہی یہاں تک کہ چکوٹھی کا سنگم آگیا۔ گیٹھیاں اور چکوٹھی کی ندیوں نے بلا تامل جہلم کی بالادستی قبول کرکے بطور خراج اپنا سار ا پانی اس کی نذر کردیا۔ گوجر بانڈی سے آگے چناری کے مقام پر ’کٹھائی ناڑ‘ نے اپنا سارا مایہ آب اس کو دے دیا۔اب مظفر آباد چکوٹھی روڈ اس کا ساتھ دے رہی تھی۔لیپا ویلی روڈ کی طرف سے قاضی ناگ اور دوسری جانب سے نیلی دی ناڑ نے بھی جہلم کی اطاعت کرنے کو غنیمت جانا۔ ہٹیاں بالا کے قریب زلزال کی جھیل اور بنی حافظ جھیل نے بھی اپنا ذخیرہ آب جہلم کو سونپ دیا۔ خان دا بیلہ سے آگے ایک اور ندی اس میں اتر گئی۔

اس سے کچھ آگے دائیں جانب سے ایک اور ندی نے اس میں چھلانگ لگا دی۔ گڑھی دوپٹہ سے پہلے ایک اور جوشیلی ندی اس میں اتری۔بڈھیار شریف اور مجوئی سے آگے نکل کر ایک اور ندی اس میں شامل ہوتی ہے۔ تھوتھا سٹلائٹ ٹاو?ن سے آگے اس میں ایک آبشار (پھلوترہ دا کٹھا) کا پانی بھی مل جاتا ہے۔جب کہ کرولی سے آگے اس میں پراک دا کٹھا کا پانی اترتا ہے۔ٹنڈالی سے آگے ایک اور جھرنا ندی کی طرح بہتا ہوا جہلم میں داخل ہوتا ہے۔ لنگر پور سے آگے اس دریا کا خم ایک جزیرہ بنا کر آگے بڑھتا ہے اور اس میں سہلی دا کٹھا اور ایک بے نام ندی مل جاتی ہے۔ اب شاہراہ قائداعظم اور ایئر پورٹ روڈ اس کے متوازی چلتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں