خودکشی اور خودسوزی

خودکشی اور خودسوزی تحریر: صحیفہ نگار

ہمارے معاشرے میں خودکشی اور خودسوزی کو عجیب و غریب تناظر میں دیکھا جاتا ہے، جب معاشرہ تباہی کے دہانے پر ہو انصاف اور احساس برائے فروخت ہو تو وہاں آزادی و خودمختاری کا محظ کھوکھلا نعرہ تو گونج سکتا ہے مگر اس کا سکہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا .

مجھے یاد ہے کہ کس طرح طاقت کے نشے میں شرابور چند ہزار خاندان پورے پاکستان میں اپنی بادشاہت کا راگ الاپ رہے ہیں۔اور اس بیس ، بائیس کروڑ عوام پر اقتدار کی طویل داستان رقم کر رہے ہیں۔جس معاشرے میں غلامی کو ذہنوں میں اور پھر عملی زندگی میں اس طرح سمو دیا ہو کہ وہاں کے کسی دور میں غیور عوام اپنی روزی روٹی کے چکر سے ہی باہر نہ نکلے تو وہاں جب بھی شعور جنم لے گا تو اسکی شکل محض بے راہ روی ، ڈاکہ زنی اور اس سے بڑھ کر قتل و غارت گری کے علاوہ کچھ نہ ہو گی اور اس شعور کو بھی محض سیاسی آقاؤں کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے ورنہ اس کا انجام بھی آنکھوں کے سامنے ہے کتنے گلوبٹ موجودہ حالات اور غلامی کی بدولت استعمال ہوتے ہیں اور وقت کے ساتھ گل کر دیئے جاتے ہیں اور جو لوگ اس شعور کو حاصل کرنے سے عاری نظر آتے ہیں ان کے پاس محض دو راستے ہیں یا تو وہ اپنی اولاد کو بھی غلام بنا دے اور بیچ دے یا پھر اس نظام کے آگے گھٹنے ٹیک دے اور جب ان کی بچیاں شادی کے قابل ہوں تو جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بچیوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا دیں یا یہ نظام اپنے ہی بچوں کو قتل کر کے خودکشی کرنے کا راستہ دکھاتا ہے اگر معاشرے میں پھیلے کلچر کی بات کرے تو اس بڑا رول میڈیا کا ہے کیونکہ آج کل گائیڈ لائن میڈیا دے رہا ہے ، ہمارے لئے خوشی وہی ہے جو میڈیا دے ، غم وہی ہیں جو میڈیا دے ، ہمارا مباحثہ بھی میڈیا کے مرہون منت حاصل ہونے والا لامحال نالج ہے ، سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس قوم میں معاشی و ذہنی غلامی کے باوجود کتنے بہادر لوگ موجودہیں ، ورنہ ہر کوئی اپنی جان بچانے کے لئے دوسروں کی جان لینے کے چکر میں ہے میڈیا وہ لوگ دکھانے سے قاصر ہے جو روز مرتے ہیں اور بار بار مرتے ہیں۔

E-mail:saheefa.nigar@yahoo.com

اپنا تبصرہ بھیجیں