تاریخ جہلم

تاریخ جہلم : دولتالہ ریلوے سٹیشن ( تحریر:انجم سلطان شہباز)

دولتالہ کے قدیم گرودوارہ سے۔۔۔۔۔
گزر کر ہم۔۔۔۔
معروف شاعر۔۔۔۔
اختر دولتالوی کی۔۔۔۔۔
ہندووں کے متروکہ مکان میں۔۔۔۔

بنی ہوئی چھوٹی سی دکان کے پاس سے گزرے اور کہنہ عمارات کی گلی۔۔۔۔ریل بازار سے گزر کر آبادی سے باہر نکلے اور۔۔۔۔۔

ریلوے سٹیشن کے شکستہ راستے پر ہو لیے۔

اس دوران حسن نواز شاہ کے کیمرے کی آنکھ کئی یادگاروں کو محفوظ کرتی رہی۔

سٹیشن پر ویرانی اور وحشت کا راج تھا۔۔۔۔ہوا گویا ماتم کناں تھی۔۔۔۔۔سٹیشن ماسٹر اور ریلوے کے دیگر ملازمین کی رہائش گاہیں۔۔۔۔۔۔کھنڈر۔۔۔۔بن چکی تھیں جن میں اب قریبی رہائشیوں نے۔۔۔۔بھوسہ۔۔۔۔۔ذخیرہ کر رکھا تھا۔

مزید پڑھیے: تاریخ جہلم : مسجد اور مندر کا نوحہ (تحریر: انجم سلطان شہباز)

ریلوے کی آہنی پٹڑیاں۔۔۔۔اکھاڑ لے جانے کے بعد۔۔۔ٹریک۔۔۔۔کسی طویل قبر کا منظر پیش کر رہا تھا۔

گودام بھوت بسیرا بن چکا تھا اور سگنل کسی۔۔۔شکستہ بازو۔۔۔۔۔کی طرح کھمبے کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔

سٹیشن کا پورا ماحول گویا اداسی کے آسیب کی گرفت میں دبکا ہوا تھا۔

اتنے میں حسن کو، بھینسیں چراتا ہوا ایک شخص مل گیا، جس نے علیک سلیک کے بعد ٹھنڈی آہ بھری اور بولا:

’’مجھے وہ شام اچھی طرح یاد ہے جب آخری بار اس ٹریک پر ٹرین آئی تھی۔ اس کے بعد ملک کی دیگر لوکل ریلوے لائنوں کی طرح اس لائن کی پٹڑی بھی نیلام ہو کر لاہور چلی گئی۔‘‘

’’آپ کا گھر کہاں ہے؟ ‘‘میں نے اس کی باتوں میں دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔

اس نے سٹیشن سے تھوڑے فاصلے پر بنے ہوئے گھروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:

’’وہاں۔۔۔۔۔وہاں میرا گھر ہے اور یہاں۔۔۔۔۔میرا ہوٹل۔۔۔۔۔تھا۔ کئی مسافر رات کو ہوٹل یا میرے گھر بھی قیام کر لیتے تھے۔ مسافروں کو سفر کی سہولت تھی، کرایہ کم تھا اور لوگ اپنے گھروں کا سودا سلف بھی آسانی سے لے آتے تھے۔ ‘‘

’’تو پھر اس ٹریک کو کیوں ختم کیا گیا؟ ‘‘حسن نے حیرانی سے پوچھا۔

’’جناب! یہ سٹیشن۔۔۔۔ سیاست۔۔۔۔ کی نذر ہوگیا۔ اب مقامی سیاستدان یا ان کے رشتہ دار ٹرانسپورٹر بن چکے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ لوگ اس سستی سواری کو چھوڑیں اور ان کی گاڑیوں میں بیٹھیں۔ انھوں نے اپنے رسوخ سے یہ سٹیشن۔۔۔۔۔ختم کرادیا، پھر اس لوہے کی لاہور میں زیادہ ضرورت تھی۔‘‘

اس کی بھینسیں چرتی ہوئی دور نکل گئی تھیں، اس لیے وہ ہمیں خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔ میں اور حسن، سٹیشن کے خشک درختوں تلے دم بخود کھڑے رہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ ریلوے نظام کو وسعت اور فروغ دے نہ کہ پہلے سے بنے ہوئے ٹریک بھی اکھاڑتی پھرے۔

اب شام گہری ہوتی چلی جارہی تھی۔ حسن نے مجھے دولتالہ ہائی سکول اتارا اور خود نڑالی کی راہ لی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں