ذرا سوچیے گا

ذرا سوچیے گا! تحریر: راجہ شہزاد علی ریسرچ ایڈیٹر جہلم لائیو

ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے،لیکن بعض حکمت اور دانائی کے اقوال کے ساتھ ہمارے ہاں جو سلوک کیا جاتا ہے اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں،
*صفائی نصف ایمان ہے۔
اورمسلمان ممالک دُنیا میں گندگی پھیلانے والوں میں شامل کیے جاتے ہیں،
*تعلیم میں بڑی طاقت ہے۔
وائٹ کالر کرائم(جس میں تعلیم یافتہ لوگ ملوث ہوتے ہیں) کی شرح دیکھ کر باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم اس طاقت کو کس طرح استعمال کر رہے ہیں،
*پیار وہ واحد طاقت ہے جس سے دشمن کو دوست بنایا جا سکتا ہے،
لیکن یہاں تو “پیار” دوست کو دشمن بنا رہا ہے،
* زندگی میں اُس شخص کو تلاش کرنے کی کوشش کرو جو تن اور من دونوں طرح صاف ہو!
* پیار اندھا ہوتا ہے۔
اس کا بہترین علاج شادی ہے جو عقل کے اندھوں کی بھی آنکھیں کھول دیتی ہے۔
*سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔
اسی لیے ہمارے سیاستدان ناممکن کو ممکن بنانے کا فن خوب جانتے ہیں،
*عدل کے ایوانوں میں انصاف ملتا ہے۔
کاش کوئی آدمی یہ بات ذوالفقار علی بھٹو کو بتا دیتا،
*علم کسی کی میراث نہیں ،
شاید پاکستان میں بسنے والے غریبوں کی یہ باالکل میراث نہیں ہے۔
*جمہوریت اس وقت تک صحیح کام نہیں کرتی جب تک لوگ آگاہ نہ ہوں،
ہم تو”آگہی بھی اک عذاب ہوتی ہے”پر یقین رکھتے ہیں،

نوٹ:مندرجہ بالا تحریردراصل تحقیق اور ذاتی تجربے پر مبنی ہے۔قارئین اپنی قیمتی آراء کے لیے درج ذیل ای میل پر بھیج سکتے ہیں،
Shehzadmc1@gmail.com

اپنا تبصرہ بھیجیں