راجہ محمد افضل خان

جہلم کے معروف سیاستدان راجہ محمد افضل خان کی کہانی

ضلع جہلم کے معروف سیاستدان راجہ محمد افضل خان یکم مارچ 1936ء کو جہلم میں پیدا ہوئے،ان کے والد کا نام راجہ رحمت خان جبکہ دادا کا نام راجہ محکم دین تھا،جن کا تعلق جہلم کے نواحی گاؤں وگھ سے تھا.

انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد میٹرک اسلامیہ ہائی سکول جہلم سے کیا.

کچھ عرصہ پاک فوج کے ذیلی محکمہ سگنل میں کام کیا،پھر بوجوہ ملازمت چھوڑ دی،بھٹو کے دور حکومت میں راجن آف پیرا غائب کے بہت قریب رہے،اسی طرح ” دوسرے مشاغل ” میں بھی مصروف رہے.

1979ء کے بلدیاتی الیکشن میں راجہ افضل جہلم شہر سے کونسلر منتخب ہوئے،1981ء میں نذیر برلاس کے نا اہل ہونے کے بعد راجہ صاحب چیئرمین میونسپل کمیٹی جہلم منتخب ہو گئے،یہ ان کے سیاسی عروج کی ابتداء تھی .

اس کے بعد راجہ صاحب نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا.

1983ء کے بلدیاتی الیکشن میں راجہ صاحب دوبارہ چیئرمین میونسپل کمیٹی جہلم منتخب ہوئے،جنرل ضیاءالحق کے دور حکومت میں جب غیر جماعتی عام انتخابات کا اعلان ہواتو راجہ صاحب بادل ناخواستہ چوہدری الطاف حسین کے مقابلے میں قومی اسمبلی کے حلقے سےالیکشن لرنے کے لئے رضا مند ہوئے،الیکشن میں ”حیرت انگیز طور پر” راجہ صاحب نے چوہدری الطاف کو ہرا دیا،الیکشن کے فوری بعد چوہدری الطاف نے راجہ افضل کی نا اہلی کی درخواست دائر کر دی،لیکن راجہ فضل داد(پیرا غائب) اور میاں غلام محی الدین المعروف میاں کمہاں کے ”کمال” کی بدولت راجہ افضل نے ممبر قومی اسمبلی کا حلف اٹھا لیا.

بطور ایم این اے 1987ء کے بلدیاتی الیکشن میں راجہ افضل چیئرمین میونسپل کمیٹی جہلم منتخب ہوئے،

1988ء کے عام انتخابات میں راجہ افضل نے بیک وقت پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری الطاف حسین اور ڈاکٹر غلام حسین کو شکست دی.

1990ء کے عام انتخابات میں ن لیگ کے ٹکٹ پر راجہ افضل نے پیپلز پارٹی کے چوہدری الطاف حسین سے شکست کھائی،مسلم لیگ ن نے راجہ افضل کو شکست کے بعد اپنے ٹکٹ پر سینیٹر بنا کر ایوان بالا میں بھیجا.

1991ء کے بلدیاتی الیکشن میں راجہ افضل کا صاحبزادہ راجہ اختر چیئرمین میونسپل کمیٹی جہلم منتخب ہوا،1993ء کے عام انخابات میں راجہ افضل پی پی کے امیدوار ڈاکٹر غلام حسین کو شکست دے کر تیسری دفعہ ایم این اے منتخب ہوئے،1997ء کے الیکشن میں راجہ محمد افضل خان نے پیپلز پارٹی کے امیدوار چوہدری فرخ الطاف کو شکست دی،اور چوتھی دفعہ ایم این اے بنے،1998ء کے بلدیاتی الیکشن میں دوبارہ راجپہ افضل کے صاحبزادے راجہ اختر چیئرمین میونسپل کمیٹی جہلم منتخب ہوئے.

1999ء مین جنرل پرویز مشرف کے آنے کے بعد راجہ افضل خان،چوہدری فرخ الطاف،نوابزادہ اقبال مہدی اور چوہدری خادم حسین ق لیگ کی قیادت سے رابطے میں تھے،لیکن 2001ء کے بلدیاتی الیکشن مین چوہدری فرخ الطاف ق لیگ کی جانب سے ضلع ناظم منتخب ہوئے،جبکہ چوہدری خادم تحصیل ناظم جہلم منتخب ہوئے.

2002ء کے عام انتخابات میں بی اے کی شرط کی وجہ سے راجہ صاحب کے دو صاحبزادے جہلم کے قومی اسمبلی کے دونوں حلقوں سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سامنے آئے،راجہ صفدر ق لیگ کے چوہدری شہبازحسین سے ہار گئے جبکہ راجہ اسد ق لیگ کے پیر شمس حیدر سے جیت گئے.

پھر ق لیگ کے دور حکومت میں راجہ افضل مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے، 2005ء کے بلدیاتی الیکشن میں راجہ افضل نے ضلع بھر میں اپنے آدمی کھڑے کیے،اور ضلع ناظم جہلم کے الیکشن میں چوہدری فرخ الطاف کے مقابلے میں نوابزادہ اقبال مہدی کو کھڑا کیا،مگر چوہدری فرخ الطاف مخالف امیدوار نوابزادہ اقبال مہدی کو ہرا کر ضلع ناظم جہلم منتخب ہو گئے.

اس کے بعد 2008ء کے عام انتخابات کا موقع آیا،تو راجہ صاحب نے کمال مہارت سے گھرمالہ خاندان اور چوہدری ثقلین کو اپنے ساتھ ملا لیا،چنانچہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی چار نشستیں جیت کر کلین سویپ کر دیا،راجہ صاحب کے دونوں صاحبزادے بیک وقت ممبران قومی اسمبلی منتخب ہوئے.

یہ راجہ صاحب کی سیاسی زندگی کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا،انہوں نے اس دوران ق لیگ کے منصوبے جیوڈیشل کمپلیکس جہلم کی عمارت کو پنجاب یونیورسٹی کیمپس جہلم میں تبدیل کیا اور جہلم شہر کے سیورج سسٹم کے لئے فنڈ منظور کرائے.

لیکن جلد ہی راجہ صاحب کے کیمپ میں اختلافات پیدا ہونے لگے،جس دن ان کے صاحبزادے راجہ اختر اور چوہدری راشد گھرمالہ کے درمیان فائرنگ کا تبادلہ ہوا،اسی دن راجہ صاحب کا سیاسی زوال شروع ہو گیا،پھر پی پی 26 کے ضمنی الیکشن مین راجہ صاحب کی چوہدری خادم سے شکست ان کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا،اس کے بعد راجہ صاحب نے پیپلز پارٹی جوائن کی.

2013ء کا الیکشن لڑا لیکن بد ترین شکست ہوئی،پھر راجہ صاحب نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی،مگر لدھڑ گروپ کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد بتدریج کنارہ کش ہو گئے،2016ء کے این اے63 کے ضمنی الیکشن میں نوابزادہ مطلوب مہدی کی حمایت کی لیکن ن لیگ میں جگہ نہ بنا سکے،1985ء کے بعد پہلی دفعہ 2018ء کے عام انتخابات میں راجہ افضل یا ان کے خاندان کے کسی فرد نے براہ راست الیکشن مین حصہ نہیں لیا.

راجہ افضل کہا کرتے تھے کہ” ہم فقیروں سے دوستی کر لو گر سکھا دیں گے بادشاہی کا”چنانچہ انہیں ہزاروں ساتھیوں کا ساتھ ملا،پھر سینکڑوں اور آخر کار بات چند دوستوں تک آ گئی،راجہ صاحب کی زندگی کے آخری سات آٹھ سال محض چند جانثار ساتھی ان کا دم بھرتے رہے،چوہدری سعید اقبال،مہر محمد فیاض،راجہ ظفر اقبال،شاہین ڈار اور عامر سلیم میر راجہ صاحب کا اخلاقی طور پر ساتھ دیتے رہے مگر سیاسی طور پر دور رہے،تاہم دو ایسے کارکن بھی تھے جنہوں نے قدم قدم پر راجہ صاحب کا ساتھ دیا،اور آخری وقت تک یہ ساتھ نبھایا،یہ دو آدمی اعجاز احمد قریشی (چک جمال) اور سعید اللہ مدبر(مشین محلہ جہلم) تھے.

راجہ صاحب نے ایک بھرپور سیاسی زندگی گزاری، عوام کی نبض پر ان کا ہاتھ تھا،وہ ساتھیوں کی حمایت مین ہر حربہ استعمال کرتےجبکہ مخالفین کو دبانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے،جہلم یں سرکاری ملازمین کی سیاسی بنیادوں پر ٹرانسفر امن کی ایجاد سمجھی جاتی ہے،بہرھال جہلم کے بزرگ سیاستدان راجہ محمد افضل خان 11 اپریل 2020ء کو خالق حقیقی سے جا ملے،کورونا وباء کی وجہ سے راجہ صاحب کی نماز جازہ ان کے گھر کے سامنے ادا کی گئی،بعد ازاں ان کے جسد خاکی کو ان کے والد کے پہلو میں مقامی قبرستان میں دفن کیا گیا.

اپنا تبصرہ بھیجیں