پاک ویلنسیا

رنگ بدلنے والی پٹی، ’اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں کمی ممکن‘

برطانیہ کی باتھ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ غیر ضروری اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں کمی کے لیے رنگ بدلنے والی ایک بینڈج یعنی طبی پٹی کار آمد ہو سکتی ہے۔

یہ پٹی انفیکشن کا پتہ چلتے ہی اپنے رنگ بدلتی ہے اور یہ زخم پر بیکٹیریا کے ذریعے زہریلے مواد خارج کرنے کے نتیجے میں چمکیلے رنگ بکھیرتی ہے۔

اس سے ڈاکٹر کو بیکٹیریا کے انفیکشن کا آسانی سے پتہ چل سکتا ہے اور اس کا جلد علاج ہو سکتا ہے۔ یہ بطور خاص بچوں کے جلنے کے زخم پر موثر ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بچوں میں جلنے کے زخم میں بہت جلد انفیکشن ہو جاتا ہے کیونکہ بچوں کی قوت مدافعت کا نظام زیادہ طاقتور نہیں ہوتا۔

ان انفیکشن سے زخم کے بھرنے میں تاخیر ہو سکتی ہے جس سے انھیں ہسپتال میں زیادہ رہنا پڑ سکتا ہے اور بعض اوقات زخم کے نشان ہمیشہ کے لیے رہ جاتے ہیں۔ شدید صورت حال میں ان انفیکشن سے جان بھی جا سکتی ہے۔

151029121313_laser_treatment_of_burn_skin_patient_640x360_thinkstock_nocredit

ڈاکٹروں کو بغیر عام پٹی ہٹائے بہت آسانی سے اور بہت جلدی انفیکشن کا پتہ نہیں چل پاتا اور پٹی کا ہٹانا درد کا باعث اور مزید زخم کا باعث ہو سکتا ہے۔

ایسی صورت حال سے ٹمٹنے کے لیے احتیاط کے طور پر انفیکشن کی تصدیق ہونے سے قبل ہی اینٹی بایوٹکس ادویات دے دی جاتی ہیں۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ بغیر انفیکشن کے اینٹی بایوٹکس دینے سے بیکٹیریا اینٹی بایوٹکس کے خلاف مدافعت پیدا کر سکتا ہے اور ایسے بیکٹیریا صحت کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔

باتھ میں بائیو فزیکل کیمسٹری کے شعبے میں ریڈر کے عہدے پر فائز ڈاکٹر ٹوبی جینکنس جو اس پروجیکٹ کے نگران ہیں انھوں نے کہا کہ ’اس سے واقعی جان بچ سکتی ہے۔‘

اس ٹیم کو اس ریسرچ کے نتائج کو جانچنے کے لیے میڈیکل ریسرچ کونسل کی جانب سے دس لاکھ پاؤنڈ دیے گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں