ریاست کہاں ہے؟
سوشل میڈیا نے جہاں دنیا کو گلوبل ویلج میں تبدیل کردیا ھے وہیں اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات بھی سامنے آرھے ہیں۔
سوشل میڈیا کا سب سے بڑا نقصان اس پہ چلنے والی جھوٹی خبریں،ان کا پلک جھپکتے میں زبان زد عام ھوجانا ھے جسے لوگوں کی اکثریت سچ سمجھ کے آگے پھیلا دیتی ھے۔ایک طرف مخا لف سیاسی جماعتوں کے کارکن اپنے مخالفین کے بارے میں جھوٹا پراپیگنڈا کرتے نظر آتے ہیں،تو دوسری طرف فرقہ پرستی سے متعلق بھی پوسٹیں ہمہ وقت گردش کرتی رہتی ہیں۔
حالیہ دنوں میں پیش آئے واقعے کی گونج پورے ملک میں سنائی دی،جس کا علم سوشل میڈیا استعمال کرنے والے ہر صارف کو ہے، واقعہ کے مطابق چند سوشل میڈیا ایکٹوسٹ اچانک لاپتہ ھوگئے اورپھر کچھ دنوں بعد اچانک واپس آگئے۔ان بلاگرز کے بارے میں سوشل میڈیا پہ کہا جاتا رھا کہ مبینہ طور پر یہ بلاگرز فیس بک پہ توہین رسالت پہ مبنی پیجز چلاتے تھے۔الیکڑونک میڈیا کا ایک حصہ ان بلاگرز کے مخالف اور ایک حصہ ان کے حق میں سامنے آیا کہ اگر ان بلاگرز نے واقعی کوئی ایسا فعل کیا ھے تو ان پہ مقدمہ چلا کر قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیئے نہ کہ انکو لا پتہ کردیا جائے۔دوسری طرف سول سوسائٹی المعروف موم بتی مافیا نے اس کا الزام حسب عادت فوج پر ڈال دیا جس کی ڈی جی آئی ایس پی آر نے سختی سے تردید کردی۔
اس واقعہ کے متعلق کافی لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں جس کے جوابات تاحال نہیں ملے،
سب سے پہلے سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اس سارے معاملے میں ریاست کہاں ھے؟
اگر ان بلاگرز کا متنازعہ پیجز سے کوئی تعلق نہیں تھا تو یہ غائب کیوں ہوئے؟
یہ اتنے دن کس کی قید میں رہے؟
اگر یہ بلاگرسوشل میڈیا پر گستاخانہ صفحات نہیں چلا رہے تھے توکون یہ مذموم حرکت کر رہا تھا؟
اسی طرح اگر واقعی گستاخانہ پیجز کے پیچھے یہ بلاگرز ہی تھے تب تو یہ اور بھی بھیانک جرم ھے کہ حکومت نے سب کچھ جانتے ھوئے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا۔اور ان بلاگرز کو بناء کاروائی کیے چھوڑ دیا۔
ان سب سوالات کا جواب ریاست ہی دے سکتی ھے،
لیکن ریاست اسس سارے معاملے میں کہیں نظر نہیں آرہی۔
نہ ریاست ہمیں یہ بتانے کو تیار ھے کہ ان گستاخانہ پیجز کو کون چلا رھا ھے اور نہ ریاست کے پاس اس بات کا جواب ھیکہ یہ بلاگرز اتنے دن کہاں غائب رھے؟