جنگِ آزادی

سامراجیت کے خلاف اہل جہلم کا جذبۂ حریت قسط نمبر 1

جنگِ آزادی1857 ء کی داستان
1857ء میں جب ہندوستان کے تمام لوگوں نے انگریزوں کی غلامی کا جوا اُتار پھینکنے کے لئے برصغیر کے کونے کونے میں آزادی کے لئے مسلح جدو جہد کا آغاز کیا تو اس وقت جہلم میں دو فوجی پلٹنیں تھیں

،ایک 14اور دوسری39پلٹن تھی۔39نمبرپلٹن کو ڈیرہ اسماعیل جانے کا حکم دیا گیا۔ یہ پلٹن بغیر میگزین کے ڈیرہ اسماعیل خان چلی گئی۔اس وقت جہلم میں ایک توپخانہ بھی تھا۔ اس کو لاہور جانے کا حکم دیا گیا اور وہاں اس کے جوانوں کو غیر مسلح کردیا گیا۔اس کے بعد جہلم میں صرف 14نمبر پلٹن رہ گئی جس میں صرف مسلمان تھے۔اس پلٹن کی دو کمپنیوں کو راولپنڈی جانے کا حکم دیا گیا اور راولپنڈی سے انگریز فوجی اور سکھ جہلم آگئے۔ یہاں انھوں نے جہلم کے مجاہدین سے ہتھیار چھین کر انھیں غیر مسلح کرنے کی کوشش کی تو یہ جوان بپھر گئے اور سکھوں اور انگریزوں کو باڑ پہ رکھ لیا۔ انگریزوں نے راولپنڈی سے تو پخانہ منگوا لیا۔اس وقت تمام مجاہدین کینٹ کے نزدیک ایک گاؤں لوٹہ میں جاکر مورچہ بند ہوگئے۔انگریز توپوں کے ساتھ اس گاؤں پر حملہ کردیا۔ مجاہدین نے اپنا دفاع کرتے ہوئے اس حملے کا منہ توڑ جواب دیا اور انگریز اپنے کمانڈر کی لاش اور دیگر انگریزوں اور سکھوں کی لاشیں میدان میں چھوڑ کر پسپا ہو گئے۔مجاہدین نے اس توپ پر قبضہ کر لیا۔ انگریزوں نے مزید کمک طلب کرلی، مجاہدین اب زیادہ دیر تک موضع لوٹہ میں مورچہ بند رہ کر لڑ نہیں سکتے تھے اس لئے انھوں نے دریائے جہلم کا رُخ کیا اور بیلی پاہروا ل اوربگا سعیلہ کے درمیان سے دریامیں واقع ایک جزیرے میں چلے گئے جہاں درختوں کی بہتات تھی۔گذشتہ لڑائی میں150مجاہدین نے شہادت پائی تھی۔ اب ان مجاہدین کے ساتھ جہلم و پوٹھوار کے مزید جنگجو بھی شامل ہو چکے تھے اور ان کی تعداد500افراد تک پہنچ گئی تھی۔بعض مقامی افراد نے مخبری کردی اور ان مجاہدین کو دریائی جزیرے میں گھیر لیا گیا۔ یہ جزیرہ کھمبی خانپور کے سامنے تھے وہاں سے گجرات کا حاکم ایلیٹ انگریز اور سکھ سپاہیوں کے ساتھ آگیا۔ جہلم کی جانب سے بھی ان آزادی کو متوالوں کو انگریزوں نے گھیرے میں لے لیا ۔ اس وقت بہت سے جوان دریا میں کود گئے اور دریائے جہلم کی تند لہروں کی نظر ہو گئے۔باقی ماندہ پر دواطراف سے شدید بے رحمانہ فائرنگ شروع کردی گئی اور بہت سے مجاہدین نے جامِ شہادت نوش کیا۔صرف 40 مجاہد زندہ گرفتار ہوئے جنہیں میدانِ قصاباں(موجودہ میدان پاکستان) میں مصلوب کردیا گیا۔ ان شہداء میں مرزادلدار بیگ،سید کرم علی،تاج دین، ڈاکٹر رسول بخش اور امیر علی کے نام شامل ہیں۔اس کے علاوہ دیگر شہداء گمنام ہیں۔انگریزوں کے جو افراد اس جنگ میں کام آئے ان کے نام پرانے چرچ میں درج ہیں۔ جبکہ ان کی تدفین گورا قبرستان میں ہوئی تھی۔زندہ گرفتار ہو نے والے 40 مجاہدین کے ناموں کی فہرست پروفیسر احمد حسین قریشی قلعہ داری کے پاس موجود ہے انھوں نے ایک ملاقات میں یہ فہرست مجھے فراہم کرنے وعدہ بھی کیا تھا مگر بعد ازاں وہ یہ فہرست غالباً کہیں رکھ کر بھول گئے۔
جنگ آزادی میں سکھوں اور ہندوؤں نے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا البتہ جھانسی کی رانی اور نانا فرنویس نے مسلمانوں کا ساتھ دیا تھا اور انگریزوں سے جنگ کی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انگریز رانی آف جھانسی اور نانا فر نویس کو ان کے حقوق سے محروم کرنا چاہتے تھے۔
جنگ آزادی:جہلم۔ 6 جولائی 1857
جیسے ہی باغی سپاہیوں نے فائرنگ شروع کی افسر اور سکھ کامریڈ، یورپیوں کی طرف بھاگے۔ گھڑ سواروں اور ملتانی رضاکاروں کو حملے کے احکا مات دیے گئے مگر باغی سپاہی برآ مدے، کوارٹر گارڈ کی چھت اور اپنے کمروں میں آڑ لے چکی تھے دس منٹ جاری رہنے والے اس مختصر مقابلے میں 240 حملہ آوروں میں سے 9 مارے گئے جبکہ 28 زخمی ہوگئے۔ آرٹلری اور انفنٹری دشمن کی مدد کیلئے آگئی تھیں انقلابی شدید دباؤ کا مقابلہ کرتیرہے لیکن بالآخر انہیں 39 رجمنٹ کی لائنز کی طرف جانے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ رجمنٹ کے اسلحے کا گودام جل جانے کے باعث وہ یہاں زیادہ دیر نہیں رک سکتے تھے لہٰذا وہ گاؤں سعیلہ کی طرف چلے گئے۔
شام کے تقریبا 5 بجے لڑائی پھر سے شروع ہوئی آرٹلری گاؤں کے نہایت نزدیک سب سے آگے موجود تھی لہٰذا باغی سپاہی، گولہ اندازوں کو انتہائی مہلک درستگی سے نشانہ بنا سکتے تھے جبکہ دشمن کی جانب سے کیا جانے والا فائر گھروں کی دیواروں پر خرچ ہو رہا تھا۔ گھوڑوں اور آدمیوں کی تیزی سے ہلاکت اور اسلحہ کی کمیابی کے باعث پیچھے ہٹ جانے کے احکا مات جاری ہوئے۔ انقلابیوں نے گاؤں سے باہر نکل کر حملہ کیا اور اس توپ پرقبضہ کرلیا جو دشمن اپنے پیچھے چھوڑ گیا تھا۔ رات ہوجانے کے باعث برطانوی فوج نے گاؤں کا محاصرہ کرنے کی مزید کوئی کوشش نہیں کی۔ اگلی صبح انقلابی گاؤں خالی کرکے دریا کی طرف چلے گئے وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ پل اور کشتیاں زمینداروں کے قبضے میں تھیں جو ان کے دشمن کے خیر خواہ تھے انہوں نے نجی کشتیوں کے ذریعے مختلف سمتوں میں منتشر ہونا چاہا مگر اس کوشش میں ان میں سے کئی پکڑے گئے جنہیں پھانسی دے دی گئی۔ اسطرح 14 این آئی(مقامی فوج) تباہ ہوگئی اور ایک ہی دن میں برطانوی حکومت کو ہونے والے نقصان میں 44 افسران و سپاہی ہلاک اور109 زخمی شامل تھے۔
7جولائی1857ء کو ایک انگریز ولیم کونلے(William Connolly ) نے جہلم کے مقام پر آزادی کے متوالوں کا سامنا کیا۔ اسے دوبار گولیاں لگیں مگر وہ مسلسل لڑتا رہا جس پر اسے وکٹوریہ کراس کا اعزاز دیا گیا۔اسی طرح کرنل ولیم سپرنگ کا بیٹا کیپٹن فرانسس سپرنگ بھی لڑتے ہوئے مارا گیا۔ اس کا نام دیگر35افراد کے ساتھ سینٹ جان چرچ جہلم میں ایک سنگ مرمر کی ایک سلیب پر لکھا ہوا ہے۔یہ سلیب1936ء میں24پیادہ رجمنٹ کے ان جوانوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے نصب کی گئی تھی۔جب ان سپاہیوں کی نعشیں اسی چرچ کے قبرستان میں دفن کی گئی تھیں۔
معرکۂ جہلم:
این آئی(Native Force) کی 14ویں رجمنٹ اگرچہ بغاوت کیلئے پر تول رہی تھی۔چیف کمشنر نے راولپنڈی سے 24ایچ ایم کو تین توپوں اور285 سپاہیوں کے ساتھ جہلم کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔اس رجمنٹ کی کمان کرنل ایلس کے پاس تھی ۔ جہلم کے ڈپٹی کمشنر کو کرنل ایلس سے تعاون کرنے کاحکم ملا۔6جولائی 1857ء کو کرنل ایلس دینہ پہنچ گیا اور ڈپٹی کمشنر نے دینہ میں آکر اسے سارے انتظامات سے آگاہ کیا۔ کرنل ایلس نے کہا کہ اس کی فورس دینہ سے کوچ کر کے آرٹلری کے پریڈ گراؤنڈ میں پہنچے گی جواین آئی14سے آگے ہے۔اس کے بعد یہ اس باغی رجمنٹ کے سامنے جائے گی۔ کرنل ایلس شام کے چھ بجے جہلم پہنچ گیا اور اس نے کرنل گیرارڈ(Gerrard)سے ملاقات کی اور اسے اپنے آنے اور اس پریڈ کے مقصد سے آگاہ کیا۔کرنل گیرارڈ نے مستورات کو فی الفور سولائنز کی طرف چہل قدمی کیلئے بھیج دیا جائے گا۔یہ بھی طے کیا گیا کہ تمام فورس ڈپٹی کمشنر کی صوابدید پر ہوگی۔پولس کے150جوان،60شمشیرزن اور250گھڑ سوار بھی کرنل ایلس کی معاونت کریں گے۔
یہ تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے اور اگلی صبح سورج طلوع ہونے کے بعد24رجمنٹ کے سپاہی کوارٹر گارڈ کی طرف بڑھے جس کے سامنے 14رجمنٹ کے جوان کھڑے تھے۔انھوں نے سامنے سے آتے ہوئے چند افسروں پرتین چار فائر داغ دیے۔اس کے ساتھ ہی ڈپٹی کمشنر اور کرنل ایلس چھلانگ لگا کر توپخانے کی جانب لپکے اور توپوں کے دہانوں نے آگ اگلنا شروع کردی۔ 14رجمنٹ کے جوان فائرنگ کرتے ہوئے اپنی لائنز کی جانب دوڑنے لگے۔جب انھوں نے بھی پوزیشن سنبھال کر فائرنگ شروع کی تو ایلس کی فوج نے500گز پیچھے ہٹ کر کوارٹر گارڈ کے مخالف پوزیشن لے لی۔کوارٹر گارڈ اس وقت جوانوں سے بھری ہوئی تھی اور ایک مضبوط پوسٹ تھی۔عمارت پر وقفے وقفے سے گولیاں چلتی رہیں اسی دوران ڈپٹی کمشنر نے گھڑ سواروں کو گرجا گھر اور کینٹ کے درمیان کھڑا کردیا تاکہ اگر کوارٹر گارڈ کو آگ لگانے کی کوشش کی جائے تو اس روکا جاسکے نیز کوئی باغی سپاہی بھاگ کر شہر میں داخل نہ ہو پائے۔
ڈپٹی کمشنر واپس پریڈ گراؤنڈ پہنچا تو اس نے اندازہ لگایا کہ توپخانے کی کارروائی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تھا۔اس کے بعد حکمت عملی تبدیل کر کے پولیس اور فوج کو لائنوں میں داخل ہونے اور باغیوں کو باہر نکالنے کا حکم ملا۔ دائیں جانب سے پیشقدمی کی گئی جب کہ توپخانے نے بھی ان کی معاونت کیلئے اسی جانب حرکت کی۔ باغی سپاہیوں کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا تھا اور ایلس کی فوج ایک ایک انچ آگے بڑھ رہی تھی۔ایلس نے ایک دستے کی قیادت کی اور کوارٹر گارڈ کی طرف چڑھ دوڑا۔چونکہ وہ گھوڑے پر سوار تھا اس لئے باغی جوانوں نے اسے نشانہ بنا لیا اور دو گولے داغے ۔ ایک اسی کی گردن میں شدید گھاؤ ڈال گیا اور دوسرا اس کی ٹانگ پر لگاجو زیادہ گہرا نہیں تھا۔اس کے گھوڑے کو بھی نشانہ بنا دیا گیا۔فوری طور پر اس کے مرجانے کا شور اٹھامگر جلد ہی علم ہوگیا کہ وہ زندہ ہے۔ اس کے بعد اس کے جوانوں نے جوش سے حملہ کرکے کوارٹر گارڈ پر قبضہ کرلیا اور اس 39ویں کوارٹرگارڈ کو اڑادیا۔اب کمانڈ کرنل گیرارڈ کے پاس تھی اس نے ایک توپ سے سامنے کی چند عمارتوں پر فائر کھولا جو باغیوں کے قبضے میں تھیں۔جلد ہی باغی لائینیں چھوڑ کر دریا کے کنارے واقع گاؤں سعیلہ کی جانب بھاگے۔ڈپٹی کمشنر نے فوراً رسالے کو تعاقب کا حکم دیا مگر زمینی صورت حال کی وجہ سے باغی جلد ہی دوبارہ گاؤں میں دفاعی پوزیشنیں سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے۔توپخانے نے بھی بھاگتے ہوئے سپاہیوں پر فائر کھول دیا مگر کسی ایک کو بھی نشانہ بنانے میں ناکام رہا۔سعیلہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا اور چونکہ اس وقت باغی جوانوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ فور۱ً اس پر حملہ کردیا جائے مگر کرنل گیرارڈنے کہا کہ ابھی بہت سے سپاہی لائنوں میں روپوش ہیں اس لئے پہلے لائنوں کو خالی کرایا جائے اس مقصد کی تکمیل کیلئے سپاہیوں نے ایک بارپر لائنوں کا رُخ کیا۔اس وقفے کے دوران دریا کی جانب چھپے ہوئے سپاہی بھی سعیلہ پہنچ گئے اور جلد ہی یہاں ان کی بھاری نفری جمع ہوگئی۔ اس وقت دن کا ایک بج چکا تھا سپاہی بھوک سے نڈھال تھے اس لئے کرنل گیرارڈ نے انھیں کھانا کھانے کیلئے پیچھے بھیج دیا۔توپخانے والوں کو تو کھانا مل گیا تھا مگر 24رجمنٹ کے جوانوں کیلئے کوئی چیز نہیں تھی اس لئے انھیں افسران کے بنگلوں سے شراب فراہم کی گئی۔چار بجے کرنل گیرارڈ نے ڈپٹی کمشنر سے درخواست کی کہ لیفٹیننٹ بیٹائے(Battye) کو پولیس کے ساتھ لائنز اور میگزین کی حفاظت کیلئے چھوڑا جائے۔ میگزین کے دروازے ٹوٹ چکے تھے اور باغی سپاہی اس پر دوبارہ حملہ کرکے اپنی خالی شدہ بندوقوں کیلئے گولیاں لے سکتے تھے۔تاہم جب وہ میگزین پہنچا تو علم ہوا کہ اس کو پہلے ہی لوٹ لیا گیا تھا اور بہت سا اسلحہ اور ایمونیشن غائب تھا۔ڈپٹی کمشنر نے جوانوں کو کوتوالی بھیجا اور بچ جانے والا اسلحہ اور ایمونیشن محفوظ کرنے کا حکم دیا۔
To Be Continued………
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مزید پڑھنے کے لیے دیکھیے قسط نمبر 2
نوٹ: زیر نظر تحریر مو رخ جہلم انجم سلطان شہباز نے خصوصی طور پر جہلم لائیو کے لیے لکھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں