غلام اسحاق خان پاکستان کی انتہائی اہم شخصیت تھے۔انہوں نے ایک سول بیوروکریٹ کے طور پر اپنے کیرئیر کا آغاز کیا اور ترقی کرتے ہوئے صدر پاکستان کے عہدے تک جا پہنچے۔وہ پاکستان کے قیام سے لے کر 90کی دھائی تک اقتدار کی غلام گردش میں ہونے والے اہم واقعات کے عینی شاہد تھے۔اس دوران پاکستان حکومت میں ہونے والی تبدیلیوں کا بالواسطہ یا بلا واسطہ حصہ رہے۔انہوں نے پاکستان کی فوجی اور سول دونوں طرح کی حکومتوں کے ساتھ کام کیا۔انہیں پاکستان مٖیں ایٹمی پروگرام کا محافظ بھی کہا جاتا ہے۔پاکستان کے معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کے ساتھ مل کر انہوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔
خاندان:
غلام اسحاق خان کا تعلق معروف پشتون بنگش خاندان سے تھا۔ان کی فیملی پاکستان کی سیاست میں کافی متحرک ہے۔ان کے داماد انور سیف اللہ خان سابق وداقی وزیر ہیں جبکہ دوسرے داماد عرفان اللہ مروت سندھ کی صوبائی حکومت میں وزیر رہے۔اسی طرح اے این پی کی جانب سے ممبر صوبائی اسمبلی سمر ہارون بلور ان کی پوتی ہیں جبکہ ان کی دوسری پوتی جنرل ایوب خان کے پوتے اور سابق وفاقی وزیر عمر ایوب خان کی بیوی ہیں۔
پیدائش اور تعلیم:
غلام اسحاق خان 20 جنوری 1915 کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضلع بنوں کے علاقہ اسماعیل خیل میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے پہلے اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا اور پھر پشاور یونیورسٹی سے باٹنی اور کیمسٹری میں بی ایس سی کیا۔
انڈین سول سروس میں انٹری:
1941میں انہوں نے انڈین سول سروس کو باقاعدہ جوائن کر لیا۔1947 تک وہ مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ شمال مغربی سرحدی صوبہ کی بیوروکریسی میں چلے گئے۔
1956میں انہوں نے سندھ کی صوبائی حکومت میں ہوم سیکرٹری کا عہدہ سنبھالا اور 1958کے مارشل لاء تک مختلف انتطامی عہدوں پر کام کرتے رہے۔
چیئرمین واپڈا:
1961میں فوجی حکومت نے غلام اسحاق کو ویسٹ پاکستان میں چیئرمین واپڈا تعینات کر دیا۔ا س عہدے پر کام کرنے کے دوران انہوں نے منگلا ڈیم اور وارسک ڈیم جیسے میگا پراجیکٹس کی تکمیل میں اہم کردار ادا کیا۔
1966میں انہیں وفاقی سیکرٹری خزانہ کا عہدہ دے دیا گیا۔ جس پر وہ 1970تک تعینات رہے۔
گورنر سٹیٹ بنک:
1971میں پاک بھارت جنگ اور بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں انہیں گورنر سٹیٹ بنک آف پاکستان لگا دیا گیا۔اس عہدے پر وہ سوشلزم کے اصولوں کے تحت پالیسی کو فروغ دیتے رہے۔
ڈیفنس سیکرٹری:
1975میں وزیر اعظم بھٹو نے انہیں سیکرٹری دفاع تعینات کر دیا۔یہاں سے ان کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات کا آ غاز ہو ا۔اور انہوں نے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کی ایٹمی پروگرام کے حوالے سے معاونت شروع کی۔جسے بعدازاں ان کی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچایا گیا۔
وزیر خزانہ:
جب 1977میں جنرل ضیاءالحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کرنے کے بعد ملک میں مارشل لاء لگایا تو غلام اسحاق خان فوجی حکومت کے قریب ہو گئے۔
چنانچہ اسی سال ان کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ضیاءالحق نے اپنی حکومت میں وزیر خزانہ لگا دیا۔اس عہدے پر انہوں نے جنرل ضیاء الحق کی سوچ کے مطابق پاکستانی معیشت کو اسلامائیز کرنے کیلئے بھی کام کیا۔وہ کم و بیش آٹھ سال تک اس عہدے پر کام کرتے رہے اور انہوں نے پاکستانی معیشت کوساؤتھ ایشیا میں تیزی سے گروتھ کرنے والی اکانومی بنا دیا۔دوسری جانب وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے لئے بھی فنڈز فراہم کرتے رہے۔
سینٹ چیئرمین:
1985میں ملک میں غیر جماعتی الیکشن کے بعد جب غلام اسحاق کی جگہ محبوب الحق کو وزیر خزانہ لگایا گیا تو انہوں نے سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔اور وہ سول ملٹری بیوروکریسی کی مدد سے چیئرمین سینٹ آف پاکستان منتخب ہوگئے۔اس عہدے پر وہ 1988تک کام کرتے رہے۔
صدر پاکستان:
17اگست1988میں ایک طیارہ حادثے میں صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق کی اچانک وفات کے بعد غلام اسحاق خان نے آئینی طور پر قائم مقام صدر پاکستان کا عہدہ سنبھال لیا۔
اس کے بعد انہوں نے ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کرائے۔جس میں پیپلز پارٹی کی بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔وہ دو سال تک بے نظیر کے ساتھ بطور صدر کام کرتے رہے لیکن ان کے تعلقات اکثر کشیدہ ہی رہے۔آخر کار 16اگست1990کو غلام اسحاق خان نے آئین کے آرٹیکل58-2Bکا سہارا لیتے ہوئے بے نظیر کی حکومت برطرف کر دی۔
اکتوبر1990میں پاکستان میں عام انتکابات کے بعد آئی جے آئی کے میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کے طور پر سامنے آئے ۔مگر غلام اسحاق خان ان کے ساتھ بھی زیادہ دیر نہ چل سکے۔انہوں نے اپریل1993میں میاں نواز شریف کی حکومت بھی بر طرف کر دی۔جس کو سپریم کورٹ نے بحال کر دیا۔چنانچہ ملک میں آئینی بحران شروع ہو گیا۔ان حالات کو دیکھتے ہوئے اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کرتے ہوئے صدر اور وزیر اعظم دونوں کو مستعفی ہونے کا مشورہ دیا۔جس پر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفیٖ دے دیا۔
بعدازاں پیپلز پارٹی نے غلام اسحاق کو دوبارہ صدر پاکستان بنانے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہو سکا اور سردار فاروق کان لغاری صدر پاکستان بن گئے۔
غلام اسحاق خان اس کے بعد خاموشی سے اپنے گھر چلے گئے،اور پھر وہ لائم لائیٹ سے دور ہوگئے۔انہوں نے آخری عمر میں اپنے سینے میں اہم ملکی راز ہونے کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی میڈیا پر آنے سے گریز کیا۔
وفات:
2006میں غلام اسحاق شدید بیمار ہو گئے۔آخر 27 اکتوبر 2006 کو91برس کی عمر میں ان کا انتقال ہو گیا۔انہیں پشاور میں یونیورسٹی ٹاؤن کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔