وہ صبح سے بے چین و بے قرار نظر آ رہا تھا،
بے ترتیب خیالات اس کے پردہ ذہن سے ٹکرا رہے تھے،
کبھی وہ اپنی کم تنخواہ کے بارے میں سوچتا،کبھی مہنگائی کے بے قابو جن کا خوف اس کے خیال میں آتا اور کبھی محکمے میں موجود ” ترقی پسندوں ” کے بارے میں سوچتا،
دراصل کوتوالی کے ایک سیکشن میں وہ متعین تھا،جہاں دوسرے کاغذات کے ساتھ ساتھ قائد اعظم کی تصویر والے کاغذ کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،جہاں اگر کوئی چاہے تو آسانی سے شکار دستیاب ہو سکتا ہے،
اسی اثناء میں سہ پہر کو جب وہ باہر سے چکر لگا کر واپس دفتر پہنچا تو ایک سائل نما مبینہ شکار ہاتھ میں کاغذات کا پلندہ لیے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھا ہوا اس نے پایا،ایک نگاہ غلط انداز اس نے اردگرد کے ماحول پر ڈالی اور لپک کر سائل تک جا پہنچا،اسے اپنی ” خدمات ” پیش کیں،بد قسمتی سے سائل نے نفی میں سر ہلا دیا،
افسوس اس کی بے چینی کو چین اور بے قراری کو قرار نہ مل سکا،