گرو گھنٹال

صحافتی گرو گھنٹال

گرو گھنٹال کسے کہتے ہیں ؟

صحافت کے شعبے میں کردار کشی،نوسربازی اور بلیک میلنگ کا دھندہ عرصہ دراز سے چل رہا ہے،اس کی وجوہات بے شمار ہو سکتی ہیں،

تاہم سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ قومی اخبارات کے مالکان اور الیکٹرانک میڈیا کے سیٹھ چھوٹے شہروں میں اکثر ایسے نمائندگان ڈھونڈتے ہیں جو اپنا پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اخبار یا چینل تک بھی ”مناسب کمائی“ پہنچائیں،

ان نمائندگان کو نہ تنخواہ دی جاتی ہے اور نہ ہی ان کا تعلیمی پس منظر اور ذاتی کردار دیکھا جاتا ہے،صرف دیکھا جاتا ہے تو ان کا مخصوص ہنر دیکھا جاتا ہے،

بعض اوقات جرائم پیشہ افراد صحافی کا روپ دھار کر اس شعبے کا رخ کرتے ہیں،چند ہزار روپوں کے عوض کسی صحافتی ادارے کی نمائندگی حاصل کرتے ہیں،مقامی صحافیوں اور انتظامیہ سے راہ و رسم بڑھاتے ہیں،پھر کسی پریس کلب کے عہدیدار بنتے ہیں اور وہ گل کھلاتے ہیں کہ انسانیت بھی ان کو دیکھ کر منہ چھپاتی ہے،

اسی طرح پولیس اور دیگر شعبوں میں چھپی کالی بھیڑیں بھی ”صحافتی بدمعاشیہ“ کو رواج دینے میں کردار ادا کرتے ہیں،تاکہ کم پڑھے زیادہ لکھے افراد کی مدد سے معاشرے کو گمراہ کرکے اپنے دل کو تسکین پہنچائی جائے،

صحافتی تنظیمیں اور پریس کلب دنیا بھر میں صحافیوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں،لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحافتی اخلاقیات(Ethical Journalism) پر بھی زور دیا جاتا ہے،مگر ہمارے ہاں صحافی کو برادری سمجھ کر اس کے ہر مکروہ دھندے پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے،حالانکہ صحافی کی کوئی برادی نہیں ہوتی غیر جانبداری اس کی طاقت ہوتی ہے،اور پریس کلب کا ممبر یا عہدیدار بننے کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہوتا کہ گویا اسے ایک لائسنس مل گیا اب وہ جو چاہے کرتا پھرے،یہ وہ چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے صحافی گرو گھنٹال وجود میں آتے ہیں اور ٹھگ سکواڈ ترتیب دے کر میدان میں نکلتے ہیں،

واقعہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اس وقت ایک مضبوط پریس اینڈ پبلیکیشن کمیشن کی اشد ضرورت ہے،جو صحافیوں کی تعلیم و تربیت،ان کے حقوق اور ان کے جرائم کے حوالے سے کاروائی کرنے کے لئے مکمل با اختیار ہو،صحافت میں آجر(Employer)اور اجیر(Employee)کے فرق کو کم کرنے کے لئے اپنا کردارا دا کرے،فیلڈ میں کام کرنے والے صحافی اور رپورٹر حضرات کی مناسب تنخواہ کا تعین کرے،مالکان کو تنخواہ دینے کا پابند بنائے،

دروغ بر گردن راوی پنڈدادن خان میں گزشتہ روز ایک نوجوان نے اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعے بتایا کہ وہ دو مقامی صحافیوں کی بلیک میلنگ سے تنگ آکر موت کو گلے لگا رہا ہے،پھر اس نوجوان نے خودکشی کرلی،اس انتہائی دلخراش واقعے کے بعد متعلقہ حکام اور انتظامیہ کو فوری طور پر ملزمان کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے،مجرم صحافی ہوں یا پولیس اہلکار ار ان کو قرارواقعی سزا ملنی چاہیے،اس کے ساتھ ساتھ جہلم کے صحافیوں کے تعلیمی پس منظر اور ذاتی کردار کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے،

اپنا تبصرہ بھیجیں