ضلع جہلم کے مسیحا تحریر :۔احسن وحید

راقم کی آج کی تحریر کا مقصد کسی کی خوشامد کرنا نہیں بلکہ جہاں ہم اداروں میں کام نہ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں وہی میرے خیال میں اگر اچھا کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہ کریں تو پھر بھی زیادتی ہے ۔ انسان کوئی بھی مکمل نہیں ہوتا غلطیاں ہر انسان کرتا ہے اور سیکھنے کاعمل ساری زندگی ختم نہیں ہوتا ۔ محکمہ پنجاب پولیس پر میری نظر میں سب سے زیادہ تنقید کی جاتی ہے لیکن اسے محکمے میں جہاں کرپٹ افسران اورملازمین ہیں وہیں اچھے اور فرض شناص افسران بھی ہیں انہی میں سے ایک ڈی پی او جہلم حافظ عبدالغفار قیصرانی ، ڈی ایس پی سوہاوہ راجہ شاہد نذیر اور سب انسپکٹر /ایس ایچ او عبدالغفور بٹ بھی ہیں جنہوں نے اپنے حلف اور ذمہ داریوں کی لاج رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی مجھے یاد ہے جب ڈی پی اوجہلم حافظ عبدالغفار قیصرانی نے چارج سنبھالا تو مجھے سب سے پہلی خبر کو پڑھنے کو ملی وہ یہ تھی کہ انہوں نے چارج سنبھالتے ہی سب سے پہلا حکم سود خوروں بلیک میلروں ، منشیات فروشوں اور جعلی پیروں کے خلاف سخت ایکشن لینے کا دیااورپھر ہر افسر کی تعیناتی کے بعد جس سے ہوتا آیا ہے اس سے ہٹ کر یہ کام ہوا کہ انہوں نے اس حکم پر سختی سے نہ صرف عمل درآمد کروایابلکہ یہ سلسلہ رکنے نہ دیااوراس پرنگرانی بھی کی جو کہ اس بات کاعملی ثبوت تھاکہ وہ ضلع جہلم میں جہاں امن و امان قائم رکھنے میں سرگرم ہیں وہی پر معاشرے کے ان ناسوروں کو کسی صورت رعایت دینے کے حق میں نہیں اسی طرح ڈی ایس پی سوہاوہ راجہ شاہد نذیر جو کہ میری سمجھ اور تجزیے میں ضلع جہلم کے شریف ترین آفیسروں میں سے ہیں جنہوں نے ثابت کر دیاکہ اگر آپ عوام کاخدمت کا جذبہ رکھیں تو وسائل کی کمی کوئی معنی نہیں رکھتی ڈی ایس پی سوہاوہ نہ صرف شریف آفیسر ہیں بلکہ وہ ایک انتہائی فرض شناص ایماندار اورملنسار انسان ہیں جن کواکثر شام چھ بجے تک اپنے دفتر میں بیٹھے دیکھا وہ واحد ڈیس ایس پی ہونگے جورات کو پٹرولنگ کے باوجود صبح نو بجے اپنے دفتر میں سائلین کے مسائل سن رہے ہوتے ہیں اور ان کی تعیناتی کے دوران میرے مشاہدے میں آج دن تک یہ بات نہیں آئی کہ انہوں ان کے فیصلے کے خلاف دوسری پارٹی نے کوئی اعتراض کیاہو کیونکہ جو کام ان کاہے اس میں ہمیشہ یہ ہوا ہے کہ جس کے خلاف فیصلہ آیا ہو وہ متعلقہ آفیسر پرعدم اعتماد کر دیتی ہے ان کی غیر جانبداری اس بات کاثبوت ہے کہ وہ اپنے فرائض منصبی کو بااحسن پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح سابقہ ایس ایچ او تھانہ سوہاوہ انچارج ڈی آئی بی عبدالغفور بٹ نے بھی محکمے میں نہ صرف اپنے کام کی وجہ سے ایک الگ پہچان بنائی بلکہ انہوں نے بھی بطور ایس ایچ او تعیناتی اپنے علاقے میں جہاں جرائم پر کنٹرول کیاوہی ان کی تعیناتی میں جھوٹی ایف آئی آر اور جھوٹی درخواست بازی کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی اس طرح محکمہ صحت میں ڈاکٹرز کا کام ایسا ہوتا ہے کہ بظاہر دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ وہ بے حس ہیں اور روزانہ درجنوں جوان ،بوڑھے ،بچے ان کے سامنے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں لیکن حقیقت میںیہ وہ مسیحا ہوتے ہیں جو ان درد اندر رکھتے ہیں اور اگر حقیقی معنوں میںیہ لوگ اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں تو مسیحا کہلاتے ہیں ایسے ہی ایک مسیحا کانام ہے سید شبیر اختر جنہوں نے اپنی سروس کا بیشتر حصہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سوہاوہ میں گزارا اور یہی وجہ ہے کہ ان کی ریٹائر منٹ پر جہاں سینکڑوں لوگ افسردہ تھے وہی سینکڑوں لوگ ان کودعائیں بھی دیتے دیکھے ہیں اور آج ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ دوبارہ سوہاوہ میں بطور سرجن اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سوہاوہ میں جہاں سہولیات کافقدان ہے جہاں مریضوں کے لئے بیڈز کی کمی ہے جہاں کوالیفائیڈ ڈاکٹر کی کمی ہے جہاں مشینریز کی دستیابی نہیں وہی پر سرجن ڈاکٹر سید شبیر اختر آپریشن ڈے پر دس سے بارہ آپریشن کر کے عوامی خدمت میں پیش پیش ہیں اگر وہ چاہیں تو صرف دو سے تین آپریشن بھی کر سکتے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ لوگ انہیں اچھے لفظوں میںیاد رکھیں شاید یہی وجہ ہے کہ اللہ پاک نے ان کے ہاتھ میں شفاء بھی رکھی ہے اوربڑے بڑے اور مشکل سے مشکل آپریشن میں بھی انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات نے سرخرو کیا۔میری اس تحریر کے بعد مجھے شاید تنقید کانشانہ بھی بنایا جائے اور شایدسرکاری صحافی جیسے الفاظ سے بھی منسوب کی جائے لیکن مجھے جو لوگ بطور صحافی جانتے ہیں وہ میرے کام سے بھی واقف ہیں میں اپنے آپ کو آج بھی صحافت طالب علم سمجھتا ہوں میں نے اسی لئے اوپر ذکر کیاکہ کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہوتا مکمل صرف رب کی ذات ہے میں جہاں اداروں پر تنقید کرتا ہوں جہاں عوامی مسائل کواعلیٰ احکام تک پہنچاتا ہوں وہی پر مجھے جو سمجھ آیا میں نے اسے الفاظ میں لانے کی کوشش کی ۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ملک جکو ہر افسر کواپنے فرض کو سمجھنے کی توفیق دے آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں