علامہ اقبال پبلک لائبریری

علامہ اقبال پبلک لائبریری جہلم سے گفتگو

علامہ اقبال پبلک لائبریری جہلم کن مسائل کا شکار ہے؟

لائبریری کسی بھی مہذب معاشرے کا قیمتی اثاثہ سمجھی جاتی ہے،جہاں اس اثاثے کی تزئین و آرائش کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں وہیں علم کے متلاشیوں کی پیاس بجھانے کے لیے قدیم و جدید فکری اور تحقیقی مواد جمع کرنے کا بندوبست کیا جاتا ہے،کہا جاتا ہے کہ ” لائبریری ایک ایسا ڈلیوری روم ہے جہاں خیالات و نظریات کی پیدائش ہوتی ہے اور تاریخ کو زندگی ملتی ہے.

تقسیم ہند سے قبل جہلم سے تعلق رکھنے والے ریٹائرڈ سرکاری آفیسر لالہ گورن دتہ مل نے اپنے والد لالہ لدھا شاہ بندرا کی یاد میں ایک لائبریری قائم کی،برصغیر کی مشہور شخصیت ،پنجابی زبان کے مصنف اور تحریک آزادی کے رہنما لالہ لاجپت رائے کی قائم کردہ غیر منافع بخش تنظیم سرونٹس آف دی پیپل سوسائیٹی کے زیر انتظام اس کا نام لاجپت رائے لائبریری رکھا گیا جبکہ مرکزی ہال کا نام لالہ لدھا شاہ ہال رکھا گیا ،جس کا افتتاح ڈاکٹر گوپی چند بھارگو نے 3مئی36 19ء کو کیا.

علامہ اقبال پبلک لائبریریقیام پاکستان کے بعد اسکو علامہ اقبال پبلک لائبریری جہلم کا نام سے منسوب کر دیا گیا،معلوم نہیں کیسی کیسی علمی،ادبی اور سماجی شخصیات کی اس کو رفاقت میسر رہی،جن کی علمی جستجو اور جمالیاتی ذوق کو یہ دانش گاہ تسکین پہنچاتی رہی بلکہ جہلم کی گزشتہ اسی(80)سالہ تاریخ اپنے سینے میں محفوظ کیے ہوئے ہے،اس دوران مختلف حکومتی محکموں نے اس کا انتظام و انصرام سنبھالے رکھا جو اس کی موجودہ صورت گری کے اولین ذمہ دار قرار دیئے جا سکتے ہیں.

جہلم شہر کے دل میں قائم اپنے گمشدہ سکون کی تلاش میں ہے اور اہلیان جہلم کی بے اعتنائی و بیگانگی ،انتظامیہ کی نااہلی اور عوامی نمائندوں کی بے حسی کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے،جہلم لائیو سے اس کی گفتگو ملاحظہ ہو.

جہلم لائیو: اپنے محل و قوع کے بارے میں بتائیے؟

جواب: آج سے کم و بیش اسی سال پہلے جہلم شہر میں2کنال 13مرلے پر مشتمل اراضی میں لائبریری قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا،کبھی یہاں متنوع موضوعات پر مشتمل ،مختلف مذاہب عالم کی تاریخ کے بارے میں ہزاروں کتب موجود تھیں،تاہم یہ ذخیرہ کم ہوتے ہوتے تقریباََ چار ہزار کتب کے سٹاک تک آپہنچا ہے،جو 19لوہے اور 3لکڑی کی بوسیدہ الماریوں میں رکھا گیا ہے.

جہلم لائیو: اس لائبریری کی سرپرستی آج کل کس حکومتی محکمے کے زیر انتظام ہے؟

جواب: بنیادی طو پر یہ لائبریری محکمہ اوقا ف گجرات ریجن کے زیر انتظام ہے،جنہوں نے ٹی ایم اے جہلم کے دو اہلکار یہاں متعین کیے ہوئے ہیں،ان میں سے ایک لائبریرین جبکہ دوسرا نائب قاصد کے فرائض سرانجام دے رہا ہے،گجرات شہر میں تشریف فرما ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ اوقاف محمد عدنان حسین کے اختیار میں اس لائبریری کا انتظام ہے،جو ضلع گجرات میں اس قدر مصروف ہیں کہ اس لائبریری کے بارے میں سوچنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں،جبکہ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ ،محکمہ اوقاف کو خطوط لکھ کر اپنی ذمہ دارسے بری ہو چکی ہے.

جہلم لائیو: عمارت کی مجموعی حالت کیسی ہے؟

جواب:ایسا محسوس ہوتا ہے زندگی کے آخری دن آ پہنچے ہیں،کمزور دیواروں پر موجود بوسیدہ چھت کسی بھی وقت زمین پر آسکتا ہے اور خاکم بدہن کوئی ناخوشگوار حادثہ رونما ہو سکتا ہے،محکمہ اوقاف نے لیٹر نمبر AA/ETP/GRT/2014/1024 مورخہ23-10-2014 جبکہ محکمہ بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ جہلم نے لیٹر نمبر 3994-95/Cمورخہ 28-11-2014کے مطابق لائبریری کی عمارت کو خطرناک قرار دے کر شہریوں کو اس سے دور رہنے کی ہدایت جاری کر رکھی ہے،اس رپورٹ کو دیکھتے ہوئے موجودہ صورتحال کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے.

جہلم لائیو:کتنے لوگ روازانہ لائبریری آتے ہیں؟

جواب: انتہائی مخدوش صورتحال کے باوجود سات،آٹھ لوگ ہیں جو اس لائبریری سے ابھی مایوس نہیں ہوئے ،علم و دانش کی تلاش میں باقاعدگی سے یہاں آتے ہیں،اخبار پڑھتے ہیں،لائبریری کی خستہ حال عمارت کو حسرت سے دیکھتے ہیں،لائبریری کی تباہی کے ذمہ دار ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں،اور پھر اگلے دن واپس آنے کے لیے اپنے گھر روانہ ہو جاتے ہیں.

جہلم لائیو: سنا ہے اس عمارت میں کچھ خاندان رہائش پذیر ہیں؟

جواب: ناجائزتجاوزات کا سلسلہ بہت عرصہ سے جاری ہے،جس کی پشت پناہی مقامی خاتون ایم این اے کر رہی ہیں،لائبریری کے صحن میں ان کی آشیرباد سے چند خاندان رہائش پذیر ہیں،جن کے نام سراج،رمضان،رضیہ اور صادق ہو سکتے ہیں،جبکہ باہر دکانیں بنا کر کرایہ دار بٹھائے گئے ہیں،ایک دفعہ لائبریرین نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے قبضہ مافیا کی شکایت اعلٰی حکام سے کی تو خاتون ایم این اے نے موقع پر پہنچ کر معمولی سرکای ملازم کی “عزت افزائی”کی جس کے بعد مذکورہ اہلکار خاموشی کو بہترین پالیسی قرار دیتا ہے.

جہلم لائیو: اپنی آخری خواہش بتائیے؟

جواب: لائبریری میں موجود کتب میری معنوی اولاد ہیں،ہمارے ایک طرف موجود اکرم شہید لائبریری کی کتابوں جبکہ دوسری جانب سامنے گلی میں بک کارنر پر موجود کتانوں کی قسمت دیکھ کر ان کو رشک آتا ہے یہ تاریخٰی اور نایاب کتب ان جیسا ماحول چاہتی ہیں،میری آخری خواہش ہے کہ لائبریری سے قبضہ مافیا کا صفایا کر کے لائبریری کی عمارت کو ازسرنو تعمیر کیا جائے،لیکن اگر اس سے صاحبان حل و عقد کے مفاد کو نقصان پہنچتا ہے اور اس قیمتی زمین پر صاحب ذی محتشم کی نظر ہے تو پر سکون جگہ کا جواز پیش کر کے اس تاریخی اثاثے کو کسی مناسب جگہ منتقل کر دیا جائے تاکہ ان کتابوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے.

اپنا تبصرہ بھیجیں