تاریخ کی عظیم شخصیتوں میں کچھ ایسے بھی لوگ گزرے ہیں جنہوں نے قیادت کا اپنا ایک خاص رنگ ڈھنگ اور اپنی خاص روایات خود پیدا کیں اور انہی سے ان شخصیات کے خصوصی ذہن و فہم کی جھکیاں ہمارے سامنے آتی ہیں.
قائداعظم محمد علی جناح بھی اسی قسم کے قائدین میں سے تھے۔ عظمت ان پہ کہیں باہر سے تھوپی نہیں گئی۔ انہوں نیخود اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو اجاگر کیا جو ان کی عظمت کا وسیلہ ٹھہریں۔ انہوں نے اپنے خصوصی کردار کی ایسی تعمیر کی جس کے سہارے وہ گونا گوں تبدیلیوں اور گردشوں سے گزر کر اسی طرح بے داغ ابھرے جس طح سونا بھٹی میں تپ کر نکھرتا اور کندن بن جاتا ہے۔
خوش قسمتی سے قائداعظم نے اپنی نوجوانی میں وہ پیشہ اختیار کیا تھا جس نے ان کے مضمر فطری خصائل و اوصاف کو شگفتہ اور بارآور آنے کی بڑی گنجائش بہم پہنچائی۔ وہ اپنے راستے کی دشواریوں اور رکاوٹوں سے کبھی دل برداشتہ نہ ہوئے نہ ہمت ہاری۔ اس کے برعکس انہوں نے حیرت انگیز ثابت قدمی دکھائی اور اپنی ذہانت و فطانت سے راستہ ہم وار کیا اور قانون کے پیشے میں ترقیاں کیں اور بلاآخر بر عظیم کی ایک اعلٰی عدالت کے قانونی حلقے میں سربلند ہوئے اور ’’ہار’’کے لیڈر ہو گئے۔
قائداعظم نے ابتداء ہی سے اپنے جذبات کو مرتب رکھنے، اخلاقی قدروں کو اپنے اندر جذب کرنے، اور اپنی نگاہ کو وسعت وہمہ گیری مہیا کرنے کا ہنر بھی سیکھ لیا تھا۔ ان کے جذبات و احساسات قلب ماہیت کے مرحلوں سے ایسے گزرے کہ ان کی تمام تر سرگرمیاں، اخلاقی رفعت کے سانچے میں ڈھل کر تہذیبی تصورات کی طرف یکسو ہو گئیں۔ ان کی ذات بلند اور خودی بیدار ہو گئی جس نے چمکتے دمکتے ذرہ بکتر اور آلات حرب کی طرح ان تمام لوگوں کی ترکیبوں اور کارستانیوں کی صفیں چیر دیں جو مسلم قوم کو مغلوب و محکوم بنانے میں مصروف تھے۔
قائداعظم اگر شدید قسم کا نظم و ضبط نافذ کرنے والے قوائد پسند تھے تو سب سے پہلے وہ نظم و ضبط کے یہ اصول اپنی ذات پر نافذ کرتے تھے۔ اور اپنے جذبات و احساسات اور اپنی پسند و ناپسند پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے۔ جذبات ان کے اندر بھی تھے اور شدید تھے لیکن وہ اپنے جذبات و احساسات اور رجحانات کو اپنے بلند تر مقاصد اور اعلٰی اصولوں کے تابع رکھتے تھے۔
قائداعظم نے اپنی عوامی زندگی مجلس قانون ساز کے رکن کی حیثیت سے شروع کی تھی اور یہی ان کی عوامی نمائندگی اور قومی قیادت کی طرف پہلا قدم تھا۔ پارلیمانی جنگیں انھوں نے خوب خوب لڑیں۔ اور کتنی ہی پارلیمانی جنگیں ایسی تھیں کہ جب بھی وہ میدان میں اترے تو ہمیشہ کامیاب ہوئے۔ ۹۰۹۱ میں جب وہ مسلمانانِ بمبئی کی طرف سے منتخب ہو کر ان کی ترجمانی کے لیے امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں پہنچے تو اسی وقت سے ان کو بڑے بڑے مقررین اوربحث کرنے والے زبان آورں سے ایوان کے اندر سابقہ پڑا۔ لیکن دیکھا گیا کہ وہ اپنا طرہء کامرانی لہراتے ہوئے نکلے۔ ان کی پارلیمانی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ زیرِ بحث موضوع کچھ بھی ہو اس پر ان کی گرفت قادرانہ ہوتی تھی۔ اور ان کے دلائل و براہین کی کاٹ ایسی ہوتی تھی جن کا مقابلہ ناممکن ہو جاتا تھا۔
وہ سستی شہرت کو ناپسند کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی ایسا لیڈر بننا پسند نہیں کیا تھا جو عوامی امنگ ترنگ اور عوامی جذبات کی راہ میں صرف اس لیے بہہ جائیں کہ اس طرح اس کو ایک کلغی اپنی ٹوپی میں لگانے کا موقع ملے گا۔ بعض لوگوں کو ان کی اس ادا سے یہ غلط فہمی ہوئی کہ ان کے الگ تھلگ رہنے کا سبب ان کی سرد مزاجی ہے حالانکہ اس کا سبب یہ تھا کہ بعض لوگ اور بعض سیاستدان خود اپنی زندگی کی ایک راہ نکالنے کے لیے عوام کی بے خبری اور سادہ مزاجی سے فائدہ اٹھانے اور ان کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشیش کرتے تھے۔ یہ بات ان کو پسند نہ تھی۔
قائداعظم روشنی کا مینار تھے اور جو شخص بھی عوام کے بے غرضانہ خدمت کرنا چاہتا تھا اس کے لیے وہ زندگی بخشی، خیال انگیزی اور حوصلہ مندی کا مستقل سرچشمہ تھے۔ ان کی موجودگی میں آپ ہمیشہ اپنے آپ کو سرفراز اور اپنی روح کو مالامال محسوس کرتے اور یہ بات خود بھی اپنی جگہ ان کی سچی عظمت کی ایک نشانی ہے۔
فطری بات ہے کہ جس وقت سے قائداعظم نے مسلمانوں کی تنظیم تحفظ حقوق سے بڑھ کر حصول حریت کے لیے جدوجہد شروع کی، وہ کانگرس کی طرف سے اور دوسرے ہندو حلقوں کی طرف سے پسندیدہ شخص نہیں رہے۔ ان لوگوں نے ان کو بہت برا مشہور کر رکھا تھا۔ اور کہنے لگے یہ شخص آزادیِ ہند کی راہ میں زبردست رکاوٹ ہے۔
کوئی بدگوئی، کوئی تہمت و بہتان، کوئی الزام تراشی، کوئی بدزبانی ان لوگوں نے اٹھا نہ رکھی تھی۔ قائداعظم پر ہر طرف سے مسلسل حملے ہو رہے تھے لیکن وہ اپنے قدم جمائے چٹان کی طرح ان تمام یلغاراں کے مقابل کھڑے رہے۔ ان کو نہ تو خوشامد بہکا سکی اور نہ بڑی سے بڑی قیمت ان کو خرید سکی۔ نہ کوئی لالچ ان کو لبہا سکی۔ مخالفین کی بد زبانی اور تلخ نوائی کا اثر لئے بغیر وہ اپنی مخصوص شان و شاکت اور عظمت کے ساتھ آخری وقت تک اپنی جگہ پر ڈٹے رہے۔
انھوں نے اپنے کردار کی پختگی اور عقل و دانش کے فطری اوصاف کی بنا پر مسلمانانِ ہند کی آزادی کی صورت میں ایسی کامیابی و کامرانی حاصل کی۔ جس نے دوستوں اور دشمنوں کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا اور اس نے ان کے کردار اور عمل کو بھی زیادہ ناموری بخشی۔ ان کے کردار کی عظمت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے جس پر عمل کر کے ہم پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر سکتے ہیں۔