ایک دفعہ کا ذکر ہے جہلم سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب نے صحافیوں کے پر زور مطالبے پر کچہری روڈ جہلم پر پریس کلب کی تعمیر کے لیے زمین الاٹ کی ،
جس پر بعد ازاں عمارت تعمیر ہوئی،
کچھ عرصہ بعد صحافیوں نے اپنی بے چین طبیعت کے پیش نظر اس عمارت کی چابیاں ایک خاتون سیاسی رہنما کے سپرد کر دیں،جنہوں نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو شرف میزبانی بخشا ،اس کو زیر استعمال رکھا،
سالوں بعد صحافیوں کو یہ عمارت واپس لینے کا خیال آیا،
کافی تگ و دو اور احتجاج کے بعد اخبار نویسوں نے اس عمارت کا انتظام سنبھالا،جہلم پریس کلب کے نام پر انتخابات کرائے،ایک باڈی منتخب ہوئی،کچھ عرصے بعداختلافات ابھرے،
دو سال بعد بادل نا خواستہ دوبارہ انتخابات ہوئے،نئی تنظیم وجود میں آئی،پھر صحافت خطرے میں نظر آئی،دو گروپوں میں محاذ آرائی ہوئی،الیکشن ہوئے ،ہر دو فریقین نے اپنی کامیابی کا اعلان کیا،چونکہ پریس کلب کے جملہ ممبران کو اپنے تعارف کے لیے پریس کلب کا عہدیدار ہونا انتہائی درکار ہوتا ہے اس لیے الیکشن پر کوئی ممبر مطمئن نہ ہوا،
بہرحال مزید ایک سال گزرا،پھر یوں ہوا گزشتہ روزمقفل پریس کلب کا تالا توڑا گیا،چند افراد جو اپنے آپ کو صحافی بتا رہے تھے انہوں نے پریس کلب کی عمارت کو “مال غنیمت”سمجھتے ہوئے اس پر قبضہ کیا،ایک خود ساختہ کمیٹی کے ذریعے پریس کلب کی تنظیم کا اعلان کیا،گویا مارشل لاء کا اعلان کر رہے ہوں،اور شہر کی سڑکوں پر بتاتے پھرے کہ ہم صحافی ہیں،