مورخ جہلم انجم سلطان شہباز کے قلم سے یہ تحریر نکلی ہے.
کبھی جلال پور (گرجاکھ) سے لے کر باغانوالہ کے دامن تک ایک عظیم آبادی ’’شہر‘‘ کے نام سے موسوم تھی۔
مگر اب شہر کے نام پر نندنہ کے دامن میں، ایک چھوٹی سی نہر کے کنارے،چند نیم پختہ مکانات اور ایک سادہ سی مسجد باقی رہ گئے ہیں۔
باغانوالہ جانے کے لئے دھریالہ جالب سے غریب وال روڈ پر جا کر ورنالی سے ایک ذیلی سڑک پر مڑنا پڑتا ہے۔
باغانوالا کی ساری شادابی اور ہریالی اس چھوٹی سی نہر کی مرہونِ منت ہے جس نے نندنہ کے دامن سے اُبلنے والے چشموں کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔
مزید پڑھیے : تاریخ جہلم : دولتالہ ریلوے سٹیشن ( تحریر:انجم سلطان شہباز)
نندنہ کی بلندپہاڑی پر جانے کیلئے باغانوالہ سے ملحق برساتی ندی شیو گنگا سے گذرنا پڑتا ہے۔ جس کی گذرگاہ میں بڑے بڑے پتھر لڑھک آئے ہیں۔دونوں طرف، نشیب کی جانب جھکے اور سرکے ہوئے پہاڑی سلسلوں میں قدرت پوری طرح جلوہ گر نظر آتی ہے۔ان میں ہر رنگ اور ہر ہیئت کا پتھر موجود ہے۔جہاں سے نندنہ پہاڑی کی چڑھائی شروع ہوتی ہے وہاں نہر کے آگے پتھروں کا بند باندھ کر ایک چھوٹی سی شفاف جھیل بنا دی گئی ہے جس میں تیرتی ہوئی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اس کے حسن میں اور بھی رنگ بھرتی ہیں۔
اس چھوٹی سی جھیل میں دو چشموں کا پانی دائیں بائیں سے آ کر گرتا ہے۔ جھیل کے ساتھ چند بلند وبالا درختوں کے نیچے بھاری بھرکم،مسطح پتھروں سے نشست گاہ بنی ہوئی ہے جس کے ساتھ ہری ہری گھاس کا فرش بچھا ہوا ہے۔ سامنے کھجور کا درخت کسی پاسبان کی طرح کھڑا ہے یہ سارا منظر کسی شاعر کے تخیل کا عکس نظر آتا ہے۔
ایک پتھریلا بل کھاتا ہوا راستہ بیس منٹ میں آپ کو بلند پہاڑی پر لے جاتا ہے۔ اوپر 100مربع میٹر کے لگ بھگ ہموار جگہ پر ایک مندر کا آدھا حصہ کھڑا ہے۔ اس مندر کی تعمیر میں مقامی کنجور پتھر اور چونا گچ استعمال کیا گیا ہے۔ مندر دومنزلہ ہے جس کے چاروں طرف محراب نما خانے بنے ہو ئے ہیں۔
مندر کا بقیہ نصف حصہ پتھروں کے ڈھیر کی صورت میں سامنے ہی پڑا ہوا ہے۔ مندر سے دس قدم کے فاصلے پر ایک بے چھت مسجد نہایت کسمپرسی کے عالم میں کھڑی ہے۔ اس مسجد کے دو حصے ہیں، اندرون اور برآمدے پر مشتمل ہیں۔ مندر اور مسجد سے آگے ہزاروں فٹ گہرا نشیب ہے اور متصل چٹان ایک عمودی دیوار کی طرح ہے۔ جبکہ کسی حفاظتی دیوار کی عدم موجودگی، گہرائی کے خوف کو غالب کر دیتی ہے۔ مسجدکی ست رنگی محراب کے سامنے نشیب کے بعد فراز پر چند گمنام قبریں، صدیوں کی گرد تلے دب کر سیاہ پڑ چکی ہیں۔
گر چشم تصور حواس خمسہ کے ساتھ ماضی کے دھندلکوں میں اتر سکے تو وہ یہاں ہندوؤں کے مکانات، چہل پہل اور زندگی کی حرکت دیکھ سکتی ہے۔ مندر سے گھنٹیوں کی آواز پر ہندو مہیلائیں اور پرش رام رام کرتے، پوجا اور پرشاد کے لئے مندر کا رُخ کرتے ہوں گے۔
پھر انندپال جے پال اورسلطان محمود غزنوی کے مابین جنگ ہوئی۔ سلطان نے نندنہ کا محاصرہ کر لیا، پانی کی بندش نے ہندوؤں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ مصالحت کے بعد مسلمان نندنہ کی چوٹی پر آ گئے۔ مندر کے سامنے مسجد تعمیر ہوئی، اللہ کے گھر سے پانچ وقت اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ ایک طرف مندر میں گھنٹیاں،دوسری جانب اذان،ایک طرف نماز اور دوسری طرف پوجا پاٹ،ایک طرف تلک دوسری طرف محراب، ایک جانب پرارتھنا دوسری جانب دعا، ایک طرف رام رام دوسری جانب اللہ اللہ، شیر اور بکری ایک گھاٹ پینے لگے۔
البیرونی کو یہ جگہ اس قدر پسند آئی کہ اس نے یہیں ڈیرے ڈال دئیے اور ہندوؤں کے رہن سہن اور طرزِ معاشرت کا مشاہدہ نہایت قریب سے کرنے کے بعد ’’کتاب الہند‘‘ لکھی۔ ایک لمبی مدت کے ہندو مسلم اتحاد کے بعد وقت نے کانٹا بدلا ہندو اس مندرکو چھوڑ کر بھارت جا بسے۔ آج ان کے اس مندر میں گائے ماتا مزے سے گھومتی اور گوبر کرتی ہے۔ بکریاں اس کام میں اس کا پورا پورا ساتھ دیتی ہیں۔ آج کوئی گھنٹی نہیں بجتی۔ کالی قبروں میں سے نصف سے زائد نیچے لڑھک چکی ہیں جن کے کتبے انگریز نے تحقیق کے نام پر مال مسروقہ کی طرح اکھیڑ کر غائب کردیے۔
مندر شکستہ ہے،مسجد شکستہ ہے۔ بابری مسجد پہ لڑنے والوں کو اس مسجد کا دھیان نہیں آتا،یہ بھی اللہ کا گھر ہے۔ ہنومان مندر پہ کٹنے اور مرمٹنے والے بھی ایسے کئی مندروں سے نظریں چرائے ہوئے ہیں.
ایک عرصے تک مندر شان و شوکت سے رہا، پھر مسجد بنی،عظمت کا نشان رہی، آج دونوں جھکے ہوئے دونوں خجل۔ اس قادرِ مطلق کو ان رنگین پتھروں اور بے جان اینٹوں سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اس کا گھر تو دلوں کے اندر ہے اس کی خوشبو ذہنوں میں بسی ہے۔ کسی کادل نہ ٹوٹے یہی اس کا حکم ہے کہ وہ ربِّ العالمین ہے،