(مقصد حیات اور اس سے منسوب کیفیات تحریر: عمر حسن

کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کچھ عجب ہی داستان ہے میری آپکی یا شاید ہم سب کی۔ برق رفتاری سے ترقی کے سفر پر رواں دواں ہیں اور نا ممکن کو ممکن بنانے کی کوشش جاری ہے۔ عاجز کی محدود عقل کے مطابق اس سارے سفر میں بنیادی طور پر دو ہی کیفیات انسان پر غالب آتی ہیں۔ ایک تو حصول مقصد کے سفر میں تشنگی کی کیفیت اور دوسری منزل مقصود پر پہنچ جانے کے بعد کی کیفیت۔ اپنی کوتاہ علمی اور کم بصیرتی کے باوجود ان دونوں کیفیات160 پر چند جملے اور اپنا تقابلی جائزہ لکھنے کا دل کر رہا ہے۔مندرجہ بالا کیفیات160 میں سے پہلی کیفیت160 سے تو آپ سب بخوبی واقف ہوں گے۔ ہر انسان کی زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے اور بلا شبہ اس مقصد کا حصول اسکی ایک بہت بڑی160 خواہش ہوتی ہے۔ حصول مقصد کے سفر میں مسلسل ایک تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ یہ احساس ہی در حقیقت وہ وجہ ہے جو انسان کو مجبور کرتا ہے سفر کے آغاز کے لیے۔ یہ سفر اور احساس ہی انسان کو زندہ رکھتے ہیں۔ جب تک وہ کامیابی و کامرانی سے اپنا مقصد پورا نہیں کر لیتا اسکے اندر ایک بیچینی اور مقصد کو پا لینے کی جستجو رہتی ہے۔ اس سفر میں بھی توازن کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔حصول مقصد کا سفر ضرور جاری رکھے لیکن حصول کی اس کوشش میں خود غرضی کا لبادہ مت اوڑھے حلال اور حرام کی تمیز مت بھول جائے اور شریعت کی حدود سے تجاوز مت کرے۔ اگر اپنے گرد و نواح میں دیکھیں تو اکثر افراد کی نصف عمر اس تشنگی160 اور بیچینی کی کیفیت میں گزرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقصد کا مل جانا بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔ ہر انسان خود اپنا مقصد ڈھونڈتا ہے۔ عموماً جو کام انسان کے لیے راحت کا باعث بن رہا ہو دلی سکون پہنچا رہا ہو اور محنت کے باوجود باعث تھکاوٹ نا بن رہا ہو تو اس کام کے عروج تک رسائی ہی اسکا مقصد بن جاتا ہے۔ اب ذرا دوسری کیفیت160 پر تھوڑی بات کرتا ہوں، دوسری بنیادی کیفیت160 ہے منزل مقصود پر پہنچ جانے کے بعد کی کیفیت۔ یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ حصول مقصد کے بعد انسان کو وہ خوشی نصیب ہوتی ہے جسے حاصل کرنے کے لیے وو عمر بھر محنت کرتا ہے ایک اطمینان کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے آپکو کامیاب کہنے کا حقدار سمجھتا ہے لیکن عاجز نے اپنی کم بصیرتی160 کے باوجود عوام الناس میں کچھ ایسی بھی کیفیات160 دیکھی ہیں جو اس اطمینان کی کیفیت160 سے 180 کے زاویہ پر ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حصول مقصد کے بعد وقتی خوشی اور اطمینان تو حاصل ہوتا ہے لیکن اسکے بعد انسان اعصابی تناؤ کے ایک ایسے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے کے اس سے فرار کافی مشکل نظر آتا ہے۔ نصف عمر وہ مقصد کے حصول کو اس قدر اہمیت دیتا ہے کہ باقی تمام چیزوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ پھر جب وہ منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ اب تو زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیں رہ گیا۔ یہ ایک سوچ ہی اسے اندر سے مارنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ زیست بنا مقصد روحانی و جسمانی دونوں اموات کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسا شخص محسوس کرتا ہے کہ وہ خود ساختہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور اپنے ہی بنائے ہوئے پنجرے میں قید ہے۔ آہستہ آہستہ وہ محسوس کرنے کی قوت سے ہی عاری ہو جاتا ہے۔ خوشی و غمی مترادف ہو جاتے ہیں اپنے آپ سے نفرت کا احساس پیدا ہونے لگ جاتا ہے اور بیچینی ایسی ہوتی ہے کہ گویا انسان کو جیتے جی ہی مار دیتی ہے۔160 عاجز کی محدود عقل نے انسانی فطرت اور رویوں کا مشاہدہ کرنے کی کوشش کی اور تب ہی ان دونوں بنیادی کیفیات160 سے آگاہی حاصل ہوئی۔ اب ذرا اپنا عاجزانہ سا تقابلی جائزہ پیش کرتا چلوں۔ بات یہ ہے کہ ہم نے حصول مقصد پر تو بہت بحث کی لیکن آخر ہمارا مقصد ہے کیا ؟؟ آخر کیا وجہ ہے کہ مندرجہ بالا دونوں کیفیات160 میں160 بیچینی اور بے سکونی ہی نصیب ہو رہی ہے۔ ترقی کا یہ سارا سفر تمام محنت160 کا مقصد کیا ہے؟؟ بظاھر تو یہی نظر آتا ہے کہ ہمارا مقصد دولت اور لذتوں کا حصول ہے۔ یہ بھی شاید کوئی برا مقصد نہیں لیکن جب یہ مقصد مقصد اولیٰ کا رنگ اختیار کرتا ہے تو تباہی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ دولت کی ہوس ہمیں خود غرض بنا دیتی ہے۔ اس مقصد کے حصول میں ہم اپنی ترجیحات بدل لیتے ہیں جذبات سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں اور حلال اور حرام کی تمیز کو تو بارہ پتھر باہر سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً جب ہم مقصد کو پا لیتے ہیں تو وقتی خوشی کے بعد اعصابی160 تناؤ160 کا شکار اسی لیے ہو جاتے ہیں کیونکہ زندگی کا کوئی اور مقصد160 نظر ہی نہیں آتا اور جسمانی موت سے پہلے ہی روحانی موت ہو چکی ہوتی ہے۔ باقی عمر انسان زندہ لاش کی مانند گزارتا ہے۔ دیکھے! بات یہ ہے کہ اس سرے سفر میں ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں پر ہنسنا اور مسکرانا بھول ہی جاتے ہیں۔ محسوس کرنے کی قوّت سے ہی عاری ہو جاتے ہیں اور اصل مقصد سے دور ہو جاتے ہیں۔ اصل مقصد تو ہے ہی “محسوس” کرنا۔ اس احساس کی وجہ سے ہی تو بندہ خالق حقیقی کے قریب ہوتا ہے اور مخلوق الہٰی کی خدمت کو مقصد حیات بنا لیتا ہے۔160160۔ یہ ایک ایسا مقصد ہے جو انسان کو کبھی مرنے نہیں دیتا۔ جسمانی موت کے بعد بھی یہ جذبہ بدن کی قید سے آزادی حاصل کرکے زمانے کی فضا میں پھیل جاتا ہے۔ تمام مقاصد جاء4 یز160160 ہو جاتے ہیں جب مقصد اولیٰ یہ بن جائے۔ اگر دوسروں کی خوشی و غمی میں اپنی خوشی و غمی نظر آنے لگ جائے تو یہ نوید ہے کہ ایسا انسان احساسات سے خالی نہیں ہو سکتا اور یہ کہ اسکے جذبے نے آب حیات پی لیا ہے۔ یہ تو تھا میرا نقطہ نظر۔ قارئین کو حق ہے کہ اس سے اختلاف کریں یا اتفاق لیکن کم از کم اس پر سوچئے ضرور۔

اپنا تبصرہ بھیجیں