مہاجر۔۔۔۔۔ قوم نہیں بلکہ ایک حیثیت ہے جو ہمیشہ قائم نہیں رکھی جا سکتی۔ الطاف حسین برطانیہ کا شہری بن جانے کے بعد وھاں بھی مہاجر نہیں رھا لیکن پاکستان میں پروان چڑھنے والی تیسری نسل کو بھی مہاجرکہنے اور رھنے پر اکسا رھا ھے۔ مہاجر ھونا ایک حیثیت ھے جیسے حاجی ھونا، جیسے علیگ ھونا، جیسے عالم ہونا، جو صرف اسی شخص کے ساتھ لاحق ھو سکتی ھے جس نے اسے حاصل کیا ھو، اس کی اولاد کو اس حیثیت میں سے حصہ نہیں ملتا۔ جب حاجی کا بیٹا حاجی نہیں کہلا سکتا جب تک اس نے خود حج نہ کیا ھو،عالم کا بیٹا عالم نہیں کہلا سکتا جب تک خود علم حاصل نہ کرے تو مہاجر کا بیٹا خود ہجرت کیے بغیرمہاجر کیسے ھو سکتا ھے؟ مثال کے طور پر عرب سے آنے والے مسلمان جو ہجرت کرکے بر صغیر میں آبادھو گئے کیا وہ بھی مہاجر کہلانے کے مستحق ہیں؟ اور اگر نہیں تو کیوں؟
اردو سپیکنگ۔۔۔۔۔۔۔۔ کتنا مضحکہ خیز لفظ ھے۔ جب قومیت کے عنوان کیلیے چنا جانے والا لفظ بذات خود خالص اردو نہیں ھے اور اس میں بھی آدھے سے زیادہ انگریزی الفاظ کی ملاوٹ ھے تو آپ کے جذبے کیسے خالص ھو سکتے ہیں۔
پہچان۔۔۔۔۔۔ پہچان کیلیے اللہ نے قبیلے اور خاندان بنائے جو دنیا میں کہیں بھی چلے جانے کے ساتھ تبدیلنہیں ھوتے۔ مہاجرین کے ساتھ امتیازی سلوک۔۔۔۔۔۔ تقسیم کے وقت انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان پورے پاکستانمیں آباد کیے گئے۔ پنجاب اور سندھ میں انھیں زرعی زمینیں الاٹ ھوئیں۔ شہروں میں متروکہ املاک ان کے نامکی گئیں۔ پنجاب میں جہاں میں رھتا ہوں وہاں کی معیشت پر انھیں لوگوں کا راج ھے جن کے آبا ؤ اجداد انڈیاسے ھجرت کر کے آئے تھے۔ ھم جب ان سے ھجرت کے دلدوز واقعات سنتے ہیں تو ان سے محبت میں اوراضافہ محسوس کرتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک خود کو اپنے سابقہ شہروں کے نام سے موسوم تو کرتے ہیں جیسے انبالوی، امرتسری، مکیریاں والے، متے وال، لدھیانوی لیکن مہاجر نہیں کہلاتے۔ مقامی اور ملکی حکومتوں میں ان میں سے ممبران منتخب ھوتے ہیں جن کو ووٹ دینے والے اکثریت میں مقامی ھوتے ہیں۔ کسی سرکاریادارے، سکول، ہسپتال یا تھانے کچہری میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک ھوتے نہیں دیکھا سنا گیا۔
یہ حالت صرف پنجاب کے کچھ علاقوں میں نہیں بلکہ حقائق بتاتے ہیں کہ پورے پاکستان میں ھجرتکرکے آنے والوں کو اس زمین نے نہ صرف خوشدلی سے قبول کیا بلکہ انھیں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کیلیے مناسب آب و ہوا مہیا کی۔ اور انھیں زندگی کے ہر شعبے میں نہ صرف اپنے جوہر دکھانے کے بھرپور مواقعملے بلکہ انھوں نے ترقی کرکے اپنے وطن پاکستان کا نام بھی روشن کیا۔
مختلف شعبوں سے چند مثالیں پیش ہیں:
فوج:
مرزا اسلم بیگ ،پرویز مشرف ،ایم ایم عالم ،سرفراز رفیقی ،معین الدین حیدر
اعلیٰ عدلیہ:
حمود الرحمان چیف جسٹس آف پاکستان ،اجمل میاں چیف جسٹس آف پاکستان ،محمد حلیم چیف جسٹس آف پاکستان ،ناظم حسین صدیقی چیف جسٹس آف پاکستان ،سعید الزمان صدیقی چیف جسٹس آف پاکستان ،انور ظہیر جمالی چیف جسٹس آف پاکستان ،مخدوم علی خان اٹارنی جنرل آف پاکستان ،سید شریف الدین پیرزادہ اٹارنی جنرل آف پاکستان
مذہبی رہنما:
ڈاکٹر اسرار احمد ،مولانا محمد عبالوہاب (تبلیغی جماعت) ،مولانا مفتی تقی عثمانی ،سید سلیمان ندوی اور مذہبی سکالر ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
بزنس:
سکون گروپ ،دیوان مشتاق گروپ ،داود گروپ ،حبیب گروپ ،آکسفرڈ یونیورسٹی پریس ،یو بی ایل، جی آئی کے، فاسٹ شان فوڈ انڈسٹریز،حسن کارپوریشن ،زبیر انٹر پرائزز ،مازکو رائس انڈسٹریز،ہمدرد دواخانہ
بیوروکریسی:
پاکستان کے پہلے سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ،سابقہ وزیرِ خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان ،کرکٹ بورڈ کے چیئر مین شہر یار خان ،سفیر ظفر ہلالی اور سید مراد احمد خیری وغیرہ ،امتیاز عالم حنفی (گورنر بینک دولت پاکستان)،سلیم رضا (گورنر بینک دولت پاکستان)،زاہد حسین (گورنر بینک دولت پاکستان)
کھیل:
جاوید میانداد کرکٹر،سعید انور کرکٹر،حنیف محمد کرکٹر،مشتاق محمد کرکٹر،انضمام الحق کرکٹر،سکندر بخت کرکٹر،راشد لطیف کرکٹر،محمد سمیع کرکٹر،سرفراز احمد کرکٹر،فواد عالم کرکٹر،اصلاح الدین ہاکی ،حنیف خان ہاکی
دیگر مشہور (مہاجر) شخصیات جنھیں عوام نے سچی عزت اور مقبولیت بخشی۔
حکیم محمد سعید،عبد الستار ایدھی ،محمد رمضان چھیپا ،انصار برنی
نسیم امروہوی، فاطمہ ثریا بجیا، انور مقصود، حسینہ معین، انتظار حسین، فرمان فتح پوری، جون ایلیا، بشریٰرحمان، ناصر کاظمی، جوش ملیح آبادی، مشتاق احمد یوسفی وغیرہ وغیرہ ہر شعبہ زندگی میں ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ جن کو احاطہ تحریر میں لانا اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکلضرور ھے۔ یہ سب کے سب مہاجر تھے لیکن انھوں نے نہ تو کبھی امتیازی سلوک کا رونا رویا اور نہ ھیمہاجر ھونے کو اپنی ترقی کی راہ میں رکاوٹ مانا۔ پورے پاکستان نے انھیں یکساں طور پر قبول بھی کیااور عزت بھی دی۔ ان سارے حقائق کے باوجود بھی اگر کوئی کہے کہ مہاجروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ھیجنھیں حاصل کرنے کیلیے انھوں نے ہتھیار اٹھائے اور چھوٹا دان، نسیم کالیا، ناصر ٹنڈا، حمید لنگڑا، فیصلپہاڑی یا قیصر استرا بننے پر مجبور ھوئے تو کیسے یقین آئے؟۔
ایک اور امکان ھو سکتا ھے کہ شاید باقی پاکستان میں تو ایسا نہیں لیکن کراچی میں واقعی (مہاجروں) پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رھے ہیں انھیں سرکاری اداروں میں نوکریاں نہیں ملتیں، سکولوں کالجوں میں داخلہ نہیں ملتااور ھسپتالوں میں علاج نہیں ھوتا تو اس کا جواب یہ ھے کہ ایم کیو ایم کے قیام سے لے کر تا حال سوائے چند ایک ادوار کے سارا عرصہ ایم کیو ایم نے بلا شرکت غیرے کراچی پر راج کیا ھے۔ تو کیا اس سارے عرصے میں ایم کیو ایم اپنے لوگوں کی محرومی کا تدارک کرنے میں ناکام رھی؟ اور کیا مسئلہ ھے کہ اتناطویل اقتدار رکھنے کے با وجود ایم کیو ایم مہاجروں کو سرکاری اداروں میں کثیر تعداد نہ دلوا سکی تاکہ انکے ساتھ امتیازی سلوک نہ پائے؟۔
مسئلہ یہ نہیں ھے۔ حقیقت یہ ھے کہ دشمنوں کے ایجنڈے کو لے کر الطاف حسین روزِ اول سے کراچی کوجو کہ پاکستان کی معیشت کی روح ھے، توڑنے پر کاربند ھے اس مقصد کے حصول کیلیے راء کی فنڈنگ سے تخریبی وسائل حاصل کیے جاتے ہیں، نوجوانوں کو تربیت فراہم کی جاتی ھے ان کے ذہنوں میں جعلی احساسِ محرومی بھرا جاتا ھے اور لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت اور خون خرابہ ان کو انتقام کا ذریعہ بتایا جاتا ھے۔ میرے پیارے بھائیو اور بہنو جن کے آباؤ اجداد نے اس ملک عزیز پاکستان کیلیے اپنی عزت، مال، جائیداد اورجان کی قربانی دے کر ہجرت کی، آپ کے آبا ؤ اجداد پورے پاکستان کے محسن ہیں۔ آپ کا خون اس زمین کے ہر گل بوٹے کے رنگ اور خوشبو میں شامل ھے۔ آپ پاکستان کے اتنے ھی مالک ہیں جتنے یہاں کی نسل در نسل مقامی لوگ۔ خدا را حقیقت کو پہچانیے اور پاکستان اور اپنے عظیم آبا و اجداد کے حلال خون کی یوہین مت کیجیے۔ یاد رکھیے کہ پاکستان ھے تو ھم سب ہیں اور ہم سب میں آپ بھی شامل ہیں۔ پاکستان زندہ باد