’میاں جی میں پچھلے 25 برس سے آپ کی دال کھاتا آیا ہوں۔ آپ سے آج پہلی بار ملاقات ہو رہی ہے۔ بس میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔’
یہ سرخ پی کیپ میں ملبوس عامرفدا تھے جو لاہور سے اسلام آباد جاتے ہوئے خاص طور پر پروگرام بنا کر لالہ موسیٰ سے پانچ کلومیٹر دور واقع میاں جی کے ہوٹل پر ان کی مشہورِ زمانہ دال کھانے رکے تھے۔
‘آخر اس دال میں کیا خاص بات ہے؟ چنے کی دال ہی تو ہے، ہر گھر میں بنتی ہے؟’ ہم نے فدا صاحب سے پوچھا۔
’خاص بات ہے، جبھی تو پورے شمالی پاکستان میں اس دال کی دھوم ہے۔ یہ بات درست ہے کہ چنے کی دال ہر گھر میں بنتی ہے، لیکن ہاتھ ہاتھ کی بات ہوتی ہے، جگہ کی بات ہوتی ہے، پانی کی بات ہوتی ہے۔ ان سب چیزوں کے امتزاج سے جو پروڈکٹ بنتی ہے، وہ آپ کے سامنے ہے۔’
میاں جی اپنے ہوٹل کے کچن کے باہر موڑھے پر بیٹھے ہوئے ایک منقش حقے سے کش لگا رہے تھے۔ وہ وقفتے وقفے سے اٹھتے ہیں اور ایک بڑا کڑچھا اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر دال کے کھولتے ہوئے دیگ میں ہلانے لگتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ دال اپنی ہتھیلی پر ڈال کر اسے چکھ بھی لیتے ہیں اور پھر آن کر اپنے مونڈھے پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ میاں محمد منیر کی عمر 71 برس ہے لیکن وہ اپنی عمر سے کہیں چھوٹے لگتے ہیں۔ انھوں نے داڑھی کو گہری بھوری مہندی سے رنگ رکھا ہے لیکن قیاس کہتا ہےکہ اس پر اب بھی سیاہ بالوں کا غلبہ ہے۔
میں نے ان کے سامنے بھی یہی سوال رکھا کہ کیا ان کی دال کا کوئی خاص اور خفیہ نسخہ ہے جس کی بدولت انھوں نے اس قدر ترقی کی ہے کہ ایک کھوکھے سے بڑھ کر ایک جدید ریستوران اور ایک شاندار قلعہ نما شادی ہال کے مالک بن گئے ہیں۔
میاں جی کی دال
اس کے جواب میں انھوں نے مسکراتے ہوئے اپنی انگلی حقے کی نلی سے ہٹا کر آسمان کی طرف اٹھا دی۔ ‘بس جی، میں تو یہی کہوں گا کہ اوپر والے کا کرم ہے، اس کے علاوہ میری محنت ہے۔’ میاں جی اس قدر آہستہ بول رہے تھے کہ ہوٹل میں گاہکوں کے شور، بیروں کی ہا ہو اور باہر جی ٹی روڈ پر بھاری ٹریفک کی وجہ سے مجھے ان کی بات سمجھنے کے لیے کرسی کھینچ کر ان کے قریب ہونا پڑا۔
‘میرے خیال سے کاروبار کی کامیابی کے لیے سب سے پہلی شرط ایمان داری ہے۔ میں ہر چیز خالص اور ایک نمبر لے کر آتا ہوں، چاہے وہ دال ہے، دیسی گھی ہے، مرچ مسالے ہیں یا اور کوئی چیز۔ میں ہر چیز کی کوالٹی کی خود نگرانی کرتا ہوں۔ بس یہی بات لوگوں کو پسند آ جاتی ہے۔’
‘لیکن میاں جی، پھر بھی کوئی خاص نسخہ تو ہو گا؟’ میں نے اصرار کیا۔
میاں جی ایک بار پھر زیرِ لب مسکرائے اور کیمرے کی طرف کن اکھیوں سے دیکھ کر دھیمے لہجے میں کہنے لگے: ‘وہ تو ہوتا ہے، لیکن اصل چیز ایمان داری ہے۔’
صاف ظاہر تھا کہ میاں جی بھی دنیا کی مشہور کمپنیوں کی طرح اپنی ریسیپی خفیہ ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے: ‘میں نے اپنے بچوں کو سب کچھ سکھا دیا ہے، اور مجھے خوشی ہے کہ میرے بچوں کے بچے بھی اسی کام میں مگن ہیں۔ اللہ نے بہت کرم کیا ہے۔’
میاں جی نے 1960 میں لالہ موسیٰ میں ایک کھوکھے سے آغاز کیا تھا۔ ایوب خان کے دور میں تیز تر صنعتی ترقی کی وجہ سے لاہور سے جہلم تک کا علاقہ صنعتی پٹی میں تبدیل ہو گیا جس سے شیر شاہ کے دور کے تعمیر کردہ گرینڈ ٹرنک روڈ پر ٹریفک میں بےتحاشا اضافہ ہونے لگا۔
نوجوان میاں جی نے اس موقعے سے فائدہ اٹھا کر اپنا کھوکھا لالہ موسیٰ اور کھاریاں کے درمیان سڑک کے کنارے پر منتقل کر دیا، جہاں ٹرک ڈرائیوروں کو سستے نرخوں پر دال فراہم کی جاتی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بغیر کسی تشہیری مہم کے ان کی دال کی شہرت پورے جی ٹی روڈ پر ہونے لگی اور ڈرائیور میلوں کے فاصلے سے اپنی بھوک پر قابو رکھ کر میاں جی کی چنے کی دال کھانے کے لیے پہنچنے لگے۔
پاکستان کی خاص روایت ہے کہ اگر کوئی چیز مشہور ہو جائے تو اس کے ملتے جلتے ناموں والے نقلچی جنگلی کھمبیوں کی طرح آس پاس اگنے لگتے ہیں۔ میاں جی کی دال کا بھی یہی عالم ہے، اور جی ٹی روڈ پر ‘میاں جی دال’ کے ہوٹلوں ڈھابوں اور ریستورانوں کی اس قدر بھرمار ہے کہ اصل ہوٹل ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا ہے۔
میاں جی کی دال
عمران خان اور شاہ محمود قریشی میاں جی کی مشہورِ زمانہ دال اڑاتے ہوئے
میں نے میاں جی سے پوچھا کہ آپ ان نقالوں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں کرتے، تو انھوں نے جواب دیا: ‘ہر کوئی اپنی اپنی روزی کما رہا ہے۔ اگر انھیں اس سے کوئی فائدہ مل جاتا ہے تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔’
میاں جی کی یہی دریادلی، سادگی اور خلوص ہے جس کا ذائقہ ان کی دال سے بھی ٹپکتا محسوس ہوتا ہے۔
میاں جی کی دال کا جو سفر آپ سے 55 برس قبل ایک چھوٹے سے ڈھابے سے شروع ہوا تھا وہ آج ایک پھلتے پھولتے کاروبار میں تبدیل ہو چکا ہے اور اس دوران جی ٹی روڈ پر سفر کرنے والوں کی دو نسلیں اس دال کے ذائقے سے لطف اندوز ہو چکی ہیں۔