ٹریفک کے مسائل تحریر:ڈاکٹر احسان باری

سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں شدید اضافہ ہوتا جارہا ہے اور متعلقہ و ذمہ داران مسلسل چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں اور کسی قسم کے اقدامات کرنے کو قطعاً تیار نہ ہیں جن شاہراہوں اور سڑکوں پر ٹریفک مسلسل رواں دواں رہتی ہے ان پر مختلف قسم کی تجاوزات اور اشتہاری و پبلسٹی ہورڈنگزنے سفر کو مشکل ترین ہی نہیں بلکہ جان لیوا بنا ڈالا ہے ۔یہ سڑکیں اب خونی اور قتل گاہیں بن چکی ہیں ضلعی اور تحصیلی سطح پر موجود سڑکوں کی چوڑائی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ہو محکمہ شاہرات نے بشمول سڑک کے دونوں طرف کل220فٹ جگہ خالی رکھنی ہوتی ہے مگر مختلف مفاد پرست اور ناجائز منافع خور کمپنیوں نے مختلف بورڈز کی تعداد بڑھا کر فکس کردی ہے کہ توبہ بھلی!ان دنوں تو ایک چائے کی کمپنی نے اپنے صابن،چائے و دیگر مصنوعات وغیرہ کی پبلسٹی کے لیے 18,20فٹ اونچے عمارات کی چھتوں پر لگنے والے لوہے کے چوڑے گارڈرزگہرے نصب کرکے تشہیری مہم شروع کر رکھی ہے لازمی ہے کہ صوبوں کی انتظامیہ سے لین دین کرکے ہی اس کی اجازت لی گئی ہوگی اورخفیہ مخصوص طریقہ سے حصہ بقدر جسہ بھی انھیں لازماً پہنچایا گیا ہوگا۔عموماًدورویا سڑکیں25تا30فٹ چوڑی بنی ہوئی ہیں۔
مگر ان نو دولتیے سود خور سرمایہ دارصنعتکاروں نے درمیا ن میں18تا20فٹ سڑک کو چھوڑ کرمستقلاً مضبوط لوہے کے گارڈرز درمیان میں فٹ کر ڈالے ہیں یعنی ایسی رکاوٹ ایستادہ کردی ہے کہ جس سے ٹکرا کرکوئی بھی سواری پاش پاش ہو کر رہ جائے گی۔انھیں تو کئی فٹ زمین میں بجری سیمنٹ سے نصب کر ڈالا ہے۔رات کے وقت بالخصوص جب آمنے سامنے سے ٹریفک کراس ہو کر ان نصب شدہ گارڈروں کے قریب سے گزرے گی تو گاڑی کار ہو،ٹرک یا مسافروں سے بھری بس وہ اتنے زبردست دھماکہ خیز ایکسیڈنٹ کا شکار ہوسکتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتابس حکومت کا اتحادی ممبر اسمبلی وہ بھی کسی سابق صدر پاکستان کا بیٹا ہو جیسوں کی اشیر باد حاصل ہو تو پھر خواہ مخصوص کمپنی سڑکوں کے درمیان ہی گارڈر کھڑے کرکے تشہیری بورڈ لگادے کوئی پوچھ تک نہیں سکتا درجنوں حادثات ان گارڈروں سے ٹریفک کے ٹکر ا کر مختلف اضلاع میں ہوچکے ہیں لوگ احتجاج بھی کریں تو کس کے آگے۔سڑک بلاک کی گئی تو الٹا پولیس کا تشدد اور لاٹھی چارج سہنا ہوگاغالباً ایسے تشہیری بورڈوں کی اجازت سرکاری بیورو کریٹ ہی دیتے ہیں اور تقریباً ہر سب تحصیل لیول پر ایک طرف خوش آمدید دوسری طرف خدا حافظ لکھ کرباقی بورڈپر اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے جیسا انتہائی خطر ناک عمل مسلسل جاری ہے۔ایسا ایک بڑا ہورڈنگ بورڈ تقریباً تین لاکھ سے کم نہیں بن سکتا اسطرح سے پورے ملک میں ایسے بورڈ لگانے پر اس کمپنی کا تقریباً سوا ارب روپے کا خرچہ آئے گا۔پھر ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ساری پبلسٹی کا خرچہ بالآخر صارفین کو ہی مہنگی مصنوعات خرید کر بطور جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ان کی دیکھا دیکھی دوسری کمپنیاں بھی ایسے بورڈ لگانا شروع کردیں تو سڑکیں سفر کے ہی قابل نہ رہیں گی۔ٹریفک حادثات مزید بڑھتے چلے جائیں گے خدارا اس نقصان دہ اور جان لیوا عمل کو فوراً روکا جائے۔Nip the evil in the budکی طرح برائی کو جڑ ہی میں دفنا دینا چاہیے اسمیں سرکاری یا سرکار کی حمایتی کسی پارٹی کی سیاسی شخصیت ایم این اے ،ایم پی اے کی بالکل پرواہ نہ کی جائے کہ یہ خالصتاً عوامی مفاد کا مسئلہ ہے ۔عوام بجا کہتے ہیں کہ کاش کوئی افسرنیک نیتی سے ایسے دیو ہیکل ہورڈنگز کی ہیت ترکیبی اور انہیں سڑکوں کے درمیان نصب شدہ دیکھے تو سر پیٹ کر رہ جائے گا اور کسی بھی صورت اس کی اجازت نہ دے گا۔مگر جہاں معصوم نوزائیدہ بچوں کی مائیں بھی اس وقت تک اپنی چھاتیوں سے دودھ نہیں پلاتیں جب تو وہ چیخ و پکار کرنے اور رونے نہ لگ جائے تو ایسے ہورڈنگز جن کے لگانے سے قبل کروڑوں روپے بطور رشوت وصول کر لیے گئے ہوں انہیں اکھاڑنے اور اس کی مزید تنصیب کو روکنے کے لیے احکامات کون جاری کریگا؟اور ایماندا ر افسروں کی سنتا ہی کون ہے؟ مال لگاؤ اور جس مرضی درخواست کی منظوری کروالو جیسا چاہو آرڈر کروالو ۔وزیر اعظم مرکزی وزیر داخلہ صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اس کا فوری نوٹس لیں اور سڑکوں کے درمیان لوہے کے بڑے گارڈروں کو ہٹوائیں و گرنہ معصوم افراد جو ٹریفک حادثات میں ہلاک و زخمی ہورہے ہیں ان کی روتی چیختی چلاتی ماؤں کی بد دعائیں بالآخر ظالم اقتداروں کا خاتمہ کر ڈالیں گی کہ پیسوں اور زیادہ منافعوں کے لالچ میں عوام کی موت کا سامان کیا جا رہاہے،سڑکوں کے درمیان لوہے کے گارڈروں سے بورڈ لگانے کا خوفناک عمل کرنے والے صنعتکار اگر ان معروضات کو خود پڑھیں تو عوامی مفاد کے لیے انہیں خود ہٹادیں کہ خدائے عز وجل کا عذاب الٰہی ان پر ہی نازل ہوتا ہے جو اس کی مخلوق کو تکالیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ویسے بھی ہمارے ملک کے سود خور نودولتیے سرمایہ دارو صنعتکار ٹیکس بچانے کے لیے کروڑوں روپے غریبوں کی امداد کے ضمن میں شو کردیتے ہیں تاکہ ٹیکس بھی بچ جائے اور ان کاغریبوں کے ہمدرد ہونے کا ڈھونگ بھی رچا رہے۔آپ ان بورڈوں کو جتنے بھی فاصلے پر لگالیں آخر دونوں اطراف جو پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکل سواروں کے لیے رکھی گئی مخصوص جگہ ہوتی ہے وہ لازماً متاثر ہو کر رک جاتی ہے اور موٹر سائیکل سوار ہی ان میں ٹکرا ٹکرا کر زخمی اور ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔اگر لا محالہ ایسی کمپنیاں باز نہ آئیں تو ہر ایکسیڈنٹ کے بعد ہلاک ہونے والے کا قتل عمد کا مقدمہ ان مالکان پردر ج کرکے انہیں لازماً تختہ دار پر کھینچا جائے ایں بابت ان سے حلفیہ بیان انتظامیہ حاصل کرلے۔چند ماہ قبل چائے بنانے بیچنے اور پبلسٹی کرنے پر ہارون آباد ضلع بہاولنگر میں ایک غریب شخص فائرنگ سے قتل ہو چکا ہے سرکاری بیورو کریٹو ہوش کے ناخن لو! کیوں مزید قتلوں اور ہلاکتوں کے لیے ایسے مزید ہورڈنگز کی اجازت دیتے ہو؟کیا آپ کو غریب مسافروں کی جان کی کوئی پرواہ نہیں؟کیا رشوت کے پیسوں سے تم سینکڑوں سال عیاشیاں کرو گے؟بالآخر فرشتہ اجل آن پہنچے گا اور کفن کی کوئی جیبیں نہیں ہوتیں جن میں تم حرام مال ڈال سکووما علینا الالبلاغ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں