پاکستان کی عدالتی جب تاریخ لکھی جائے گئی تو پہلے دس بڑے کیسوں میں ایک پانامہ کیس ہوگا۔ چونکہ اس کیس کے فریق وزیر اعظم پاکستان ہیں لہذا یہ ایسا کیس ثابت ھوگا جس سے ملکی صورتحال یکسر بدل جائے گئی اور ملک ایک نئے دور میں داخل ھوگا۔سپریم کورٹ نے اسے مفاد عامہ کا کیس قرار دیا اور اپنے ریمارکس میں ججز نے کہا کہ عوام کا یہ حق ھے کہ انھیں معلوم ھو کہ انکے وزیر اعظم کی اہلیت کیا ھے؟
سپریم کورٹ میں پانامہ کیس 4 ماہ تک زیر سماعت رھا اور سپریم کورٹ میں اس کیس کی 3 درجن سماعتیں ھوئیں جس میں چوٹی کے وکلاء نے دونوں جانب سے دلائل دیئے۔سپریم کورٹ نے آخری سماعت میں فیصلہ محفوظ کرتے ھوئے قرار دیا کہ فیصلہ قانون کے مطابق آئے گا خواہ بیس کروڑ عوام کو بھی برا لگے۔
راقم الحروف کی ناقص رائے کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے مندرجہ ذیل میں سے کوئی فیصلہ آسکتا ھے۔
سپریم کورٹ میاں نواز شریف کو کلین چٹ دے سکتی ھے کہ فلیٹ میاں صاحب کے نام پرنہیں ہیں اور ان کے بچوں کے خلاف مقدمات درج ھوجائیں۔
سپریم کورٹ اپنے کسی جج کے ماتحت انکوائری کمیشن تشکیل دے سکتی ھے جو تمام دستاویزات کی جانچ پڑتال کرسکے جسے ریاست پاکستان کے تمام اداروں کی مدد حاصل ھو اور اس دوران عدالت میاں صاحب کی رکنیت معطل یا انھیں مستعفی ھونے کا بھی کہہ سکتی ھے۔
تحریک انصاف کی جانب سے جمع کروائے گئے دستاویزات مسترد بھی ھوسکتے ہیں اور شک کا فائدہ دیتے ھوئے میاں صاحب کو عدالت عظمٰی باعزت بری بھی کرسکتی ھے۔
میاں صاحب کی پارلیمنٹ میں کی گئی تقریر اور عدالت میں جمع کرائے گئے بیانات میں تضاد ات ہیں،اور یہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کی خلاف ورزی کے مرتکب بھی ٹھہرائے جاسکتے ہیں اس بنیاد پہ عدالت انھیں نااہل بھی قرار دے سکتی ہے
بہرحال صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ چند اندازے یا قیاس آرائیاں ہیں جو صحیح یا غلط ہو سکتے ہیں،حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہو گا،