دنیا کی پارلیمانی سیاست میں تحریک عدم اعتماد پہلی دفعہ برطانوی وزیر اعظم سر رابرٹ وال پول(Robert Walpole) کے خلاف 1742ء میں پیش کی گئی،اس کے بعد یہ تحریک پارلیمانی روایت کا حصہ بن گئی.
امریکہ میں بہرحال صدر کو ہٹانے کے لئے تحریک عدم اعتماد کی بجائے مواخذے(Impeachment) کا سہارا لیا جاتا ہے.
اگر پاکستان کی پارلیمانی سیاست کی بات کریں تو قبل ازیں دو وزرائے اعظم کے خلاف یہ تحریک ایوان میں پیش ہو چکی ہے،عمران خان تیسرے پاکستانی وزیراعظم ہیں،جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جا رہی ہے.
وزیراعظم بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد :
محترمہ بے نظیر بھٹو وہ پہلی پاکستانی وزیر اعظم تھیں جن کے خلاف قومی اسمبلی میں 1989ء میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی.
237ممبران اسمبلی کے ایوان میں اسلامی جمہوری اتحاد کے 86ارکان کے دستخطوں کے ساتھ عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ میں جمع کرائی گئی،اسی روز ایم کیو ایم نے حکومتی جماعت پیپلز پارٹی سے اتحاد ختم کر کے اپوزیشن کا ساتھ دینے کا اعلان کیا.
اس صورتحال پر اس وقت کے اپوزیشن رہنما اور موجودہ وفاقی وزیر شیخ رشید نے گرہ لگائی کہ ” ہم نے بازی جیت لی ہے ”
جبکہ بے نظیر بھٹو کے خاوند آصف علی زرداری نے ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ
“شرط لگا سکتا ہوں کہ معاملہ الٹ ہو گا ”
وزیراعظم بے نظیر نے تحریک عدم اعتماد کو جمہوری عمل کا حصہ اور اپوزیشن کا حق قرار دیا.
اس دوران اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف کی میڈیا ٹیم کے رکن سراج منیر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ
” منڈی لگی ہوئی ہے،سودے ہو رہے ہیں،بھاؤ تاؤ کا بازار گرم ہے”
بقول اظہر سہیل،اس وقت پیپلز پارٹی سندھ کے کچھ اراکین اسمبلی کو راولپنڈی انٹر کانٹٰی نینٹل ہوٹل میں اپوزیشن نے” خصوصی مراعات” دے رکھی تھیں.
اس پر مستزاد یہ کہ پیپلز پارٹی کے وزیر مملکت طارق مگسی نے اپنی پارٹی کو آگاہ کیا کہ اپوزیشن کی جانب سے انہیں عدم اعتماد کی تحریک کا ساتھ دینے پر ایک پجارو،دو کروڑ روپے نقد اور ایک بنک کا لائسنس دینے کی آفر کی ہے.
صورتحال کو بھانپتے ہوئے دونوں جانب سے ممبران اسمبلی کی حفاظت کا بندوبست کیا گیا،پیپلز پارٹی اور اس کی حامی جماعتوں کے ممبران اسمبلی کو سرحد کے وزیر اعلیٰ آفتاب خان شیرپاؤ نے پہلے پشاور کے فائیو سٹار ہوٹل اور بعد میں سوات منتقل کر دیا.
جبکہ اپوزیشن نے مختلف جماعتوں کے اراکین اسمبلی کو مری میں پنجاب ہاؤس کے ریسٹ ہاؤس اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرائے رکھا.
چنانچہ2نومبر 1989ء کو قومی اسمبلی کا ہنگامہ خیز اجلاس منعقد ہوا،تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن کو 107ممبران اسمبلی حمایت حاصل ہوئی جبکہ پیپلز پارٹی کو 124ووٹ ملے،جس کی وجہ سے وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی.
شوکت عزیز کے خلاف تحریک عدم اعتماد :
دوسرے پاکستانی وزیراعظم شوکت عزیز تھے جن کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد اگست2006میں پیش ہوئی،اس وقت جنرل پرویز مشرف صدر پاکستان تھے،اپوزیشن جانتی تھی کہ یہ تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی لیکن انہوں نے احتجاجی طورپر اسے پیش کیا.
342 ممبران اسمبلی کے ایوان میں عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے 172اراکین کی ضرورت تھی،لیکن جب ووٹنگ ہوئی تو اپوزیشن کو 136ارکان کی حمایت ملی جبکہ وزیر اعظم شوکت عزیز کو 201ممبران کی حمایت ملی اور یہ تحریک بھی ناکام ہوگئی.
کامیاب تحریکیں :
تاہم پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں دو ایسی تحریکیں تھیں جو کامیاب رہیں،
ان میں سے ایک تحریک عدم اعتماد 1985ء میں محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے دوران سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام کے خلاف آئی ،اور جنرل ضیاءالحق کی حمایت کے باعث کامیاب رہی،پھر حامد ناصر چٹھہ سپیکر قومی اسمبلی بن گئے.
دوسری تحریک عدم اعتماد 1993ء میں سپریم کورٹ سے میاں نواز شریف کی حکومت کی بحالی کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں کے خلاف آئی،وہ بھی کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔
وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد :
اب وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد پیش کی گئی ہے،یہ تحریک بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی گئی تحریک سے کافی مماثلت رکھتی ہے،چنانچہ دن بدن صورتحال تبدیل ہو رہی ہے،لوگ اس تحریک کے ممکنہ نتیجے کے بارے میں پوچھتے ہیں تو پیشن گوئی کی بجائے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں 172ارکان کی حمایت حاصل کرلی تو یہ تحریک کامیاب ہو جائے گی ورنہ ناکام ہو گی..
واقعہ یہ ہے کہ اس تحریک کا نتیجہ کچھ بھی ہو لیکن مستقبل کی پاکستانی سیاست پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے.