اگر آپ پاکستان کے خوبصورت سیاحتی مقامات کی سیر کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو اس کے لئے آپ کے پاس اس ملک کے اہم سیاحتی علاقوں کے بارے میں مناسب معلومات ہونی چاہیے۔اس انفارمیشن سے آپ کو اس ملک کی سیاحت کے دوران کافی مدد مل سکتی ہے۔۔
اس بلاگ میں ہم آج پاکستان کے سیاحتی مقامات کے بارے میں بات کرنے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں سیاحت کے بارے میں لوگوں کو بہت کم معلومات ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب ہمیں اس ملک کے کسی خوبصورت نظارے کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے تو ہم اس کی خوبصورتی سے بلاشبہ متاثر ہو جاتے ہیں۔
دراصل پاکستان کے پاس قدرتی حسن کے بے شمار نمونے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اسے دنیا کے سامنے لایا جائے۔
پاکستان کے اہم سیاحتی مقامات کی تفصیل یہاں بیان کی جا رہی ہے۔
1۔ Hunza Valley
وادی ہنزہ پاکستان میں دلکشی اور خوبصورتی سے مالا مال ایک مشہور سیاحتی مقام ہے،جو اس وقت صوبہ گلگت بلتستان کا حصہ ہے۔ یہ وادی ہمالیہ اور قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان موجود ہے۔اس وادی کی زرخیز زرعی زمین ہمیشہ سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کے علاوہ مہمان نوازی اس علاقے کی پہچان ہے۔۔
وادی ہنزہ کے کچے اور ناہموار پہاڑ پر جب آپ چلتے ہیں تو آپ کو جنت کا احساس ہوتا ہے۔دنیا سے الگ تھلگ ذہنی سکون حاصل کرنے کی یہ بہترین جگہ ہے۔
2 – Swat Valley
اس کے لئے یہی کہنا کافی ہے کہ برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم نے سوات کو پاکستان کا سوئٹزرلینڈ کہا تھا۔ وادی سوات اس وقت پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کا لازمی جزوہے۔یہ وادی اپنے قدرتی حسن، خوشگوار موسم اور مہمان نوازی کی وجہ سے کافی معروف ہے۔
وادی سوات میں قدرتی جنگلی حیات ،سرسبزوشاداب جنگلات، اونچے پہاڑ اور خوبصورت جھیلیں ایسے موجود ہیں جیسے کسی نے ترتیب سے رکھی ہوں۔
سیاحوں کے لئے یہاں ٹریکنگ، کیمپنگ، زپ لائننگ جیسی سہولیات میسر ہیں ۔
3 – Naran Kaghan
ناران اور کاغان پاکستان کے شمال میں ایک معروف سیاحتی مقام ہے۔بہتی ندیاں، میلوں گھاس کے میدان اوربرفیلے پہاڑ اس وادی کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔
کاغان ناران کی وادیاں قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ اسے جھیلوں کا گھر بھی کہا جاتا ہے،کیونکہ یہاں جھیل سیف الملوک، لولوسر جھیل، آنسو جھیل اور دتی پتسر جھیل جیسی خوبصورت جھیلیں موجود ہیں۔گرمی کے موسم میں دنیا بھر سے کاغان ناران کی سیر کرنے کے لئے ہزاروں سیاح کھچے چلے آتے ہیں۔
4 – Shogran Valley
شوگران کاغان کے قریب موجود ایک پہاڑی مقام ہے۔ جہاں لگژری ہوٹل اور موٹلز کافی تعداد میں موجود ہیں، اپنی فیملی کے ساتھ وقت گزارنےکے لیے یہ بہترین جگہ ہے۔ شوگران کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مختلف ڈاکومنٹریز،فلموں اور ڈراموں کی شوٹنگ کی جاتی ہے۔
شوگران کاسری پائے گھاس کا میدان اس کی دلکشی کو نمایاں کرتا ہے۔ یہاں پیدل سفر، ٹریکنگ اور پہاڑ پر چڑھنے کے مواقع موجود ہیں جس سے سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ یہاں موسیقی کے ایونٹ اکثر منعقد ہوتے رہتے ہیں،اس لئے یہ میوزک کے دلدادہ افراد کے لئے بھی ایک خوبصورت مقام ہے۔ ۔
5 – Skardu Valley
سکردو نہ صرف ایک خوبصورت وادی ہے بلکہ یہ بلتستان کا دارالحکومت بھی ہے۔ یہاں قدرتی خوبصورتی، تازہ چشمے، نیلی جھیلیں اور سخت پہاڑوں پھیلے ہوئے ہیں۔
اس وادی کی اسٹریٹجک اہمیت ہے، کیونکہ اسکردو میں دنیا کے چار ممالک پاکستان ، چین، افغانستان اور بھارت آپس میں ملتے ہیں۔
سکردو کی وادی قراقرم کے پہاڑی سلسلے کے پیچھے 2,286 میٹر کی بلندی تک موجود ہے۔ سیاح یہاں بلتی لوگوں کی مہمان نوازی ،حیرت انگیز کھانے، سستےہوٹل اور قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہو تے ہیں۔
6۔ Chitral Kalash
چترال پاکستان کا ایک چھوٹا مگر پرسکون شہر ہے جو ہندوکش کے پہاڑوں کے نیچے آبادہے۔ یہاں کی کمیونٹی کی الگ پہچان ہے لیکن یہ بہت جلد سیاحوں میں گھل مل جاتے ہیں۔اسی طرح چترال سے کالاش کی وادی میں جانے کے لئے دو گھنٹے کی مسافت درکار ہے۔کالاش کی خصوصیت یہ ہے کہ اس وادی کو ہزار سال پرانی ثقافت کے ساتھ یونیسکو کا ورثہ قرار دیا گیاہے۔ اس وادی میں کم و بیش پانچ ہزار کی آبادی ہے، جن کے رسم و رواج میں کئی صدیوں سے کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔
ہر سال ہزاروں سیاح اس علاقے کی ثقافت سے روشناس ہونے کے لئے آتے ہیں۔ کالاشی خواتین روایتی طور پرچھوٹی ٹوپی کے ساتھ لباس پہنتی ہیں۔ ان کا لباس کالاش کی منفرد باصلاحیت مقامی خواتین کی طرف سے تیار کیا جاتا ہے،جس میں رنگین کڑھائی کے ساتھ سیاہ رنگ بھی ہوتا ہے۔ کالاشی تہوار پر مرد اور عورتیں اکٹھے رقص کرتے نظر آتےہیں۔
اس کے علاوہ یہاں بکریوں کی پرورش کی جاتی ہیں۔یہ وادی پاکستان کے ان منفرد مقامات میں سے ہے جو قدیم طرز زندگی کی جھلک پیش کرتی ہے۔
7۔ Neelum Valley
وادی نیلم پاکستان میں کافی مشہور جگہ ہے۔یہ آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے قریب موجود ایک وادی ہے۔
اس وادی میں میٹھے پانی کی ندی کا پانی کرسٹل کی طرح صاف ہوتا ہے، اس کے علاوہ یہ خوبصورت جنگلات کا گھر ہے۔ یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں اور سیاحوں کوگرمجوشی سے ملتے ہیں۔
وادی نیلم میں ہوٹل کافی سستے ہیں،لیکن گرمی کے موسم میں یہاں کافی رش ہوتا ہے، سکون کی تلاش میں سیاحوں کے قافلے اس وادی کا رخ کرتے ہیں۔
8۔ Arang Kel
ارنگ کیل وادی نیلم کے اندر موجود ایک گاؤں ہے۔ اسے لوگ عام طور پر نیلم کا موتی بھی کہتے ہیں۔ ہے۔ یہ گاؤں تقریباً 8000 فٹ کی بلندی پر ایک پہاڑی پر موجود ہے۔ مظفرآباد سے ارنگ کیل آنے کے لئے 5 گھنٹے کی مسافت درکارہے، لیکن سیاحوں کے لئے یہ ایک قدرتی عجوبہ ہے۔
کیل کا علاقہ کشمیر سے الگ تھلگ سبز چراگاہوں اور پودوں سے بھرا ہوا ہے۔ یہاں جنگلی جانور،قیمتی گھوڑے اور نایاب قسم کے پرندے آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گے۔
یہاں قیام کے لیے ایک آرام دہ ہوٹل یا کیبن آپ حاصل کر سکتے ہیں، اور فیملی کے ساتھ پرسکون وقت گزار سکتے ہیں، اس کے علاوہ خوبصورت پہاڑی راستوں پرسفر کر سکتے ہیں۔
9 – Attabad Lake
اس جھیل کا قیام 2010 میں عطا آباد نامی گاؤں پر بڑاتودہ گرنے کی وجہ سے ہوا۔اچانک لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے دریائے ہنزہ کا علاقہ بند ہو گیا اور یہاں ایک جھیل بن گئی۔ اس کا پانی دیکھتے ہی دیکھتے 300 فٹ سے زیادہ کی گہرائی تک چلا گیا اور اس کی لمبائی21 کلومیٹر تک پہنچ گئی۔اس طرح عطا آباد کی خوبصورت جھیل بن گئی۔
نیلا فیروزی پانی عطا آباد جھیل کی پہچان ہے، جو کہ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہواہے۔
یہ جھیل اب مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش بن چکی ہے، اس جھیل کے قریب چھوٹے گیسٹ ہاؤس اور ہوٹل بن چکےہیں۔ سیاح اس جھیل پر جیٹ اسکیئنگ، ماہی گیری، کشتی رانی اور دیگر تفریحی سرگرمیوں کے لئے آتےہیں۔
10 – Shandur-Hundrup National Park
شندور گلگت اور چترال کا درمیانی علاقہ ہے۔جو تقریباً 4100 میٹر کی بلندی پر موجودہے۔ شندور کے علاقے میں آپ اپریل سےنومبر تک جا سکتے ہیں۔نومبر سے اپریل تک یہاں تک رسائی ممکن نہیں .۔شندورکا سفر صرف جیپ کے ذریعے ہی ممکن ہے، چترال سے یہ وادی 168 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
اسے دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ علاقہ کافی اونچائی پر واقع ہے۔
سالانہ شندور پولو فیسٹیول اس علاقے کی پہچان ہے،جس میں چترال اور گلگت بلتستان کی ٹیموں کا مقابلہ ہوتا ہے۔ اس فیسٹول میں سات میچ کھیلے جاتے ہیں، اورہر سال 7 جولائی سے 9 جولائی تک تین دن کے لئے یہ میلہ منعقد ہوتا ہے۔
اسےدنیا کا بلند ترین پولو گراؤنڈ بھی کہا جاتاہے۔ سیاحوں کی دلچسپی کے لئے یہاں حیرت انگیز کھانے، شاندار پولو میچ اور دیگر سرگرمیاں ہیں ۔
11۔ Khunjerab Pass
قراقرم ہائی وے پر سب سے اونچےمقام کو درہ خنجراب کہا جاتا ہے۔یہ دنیا کی سب سے اونچی سرحدی گزرگاہ بھی ہے۔ جو پاکستان کو چین کے صوبہ سنکیانگ سے ملاتی ہے۔ یہ درہ خوبصورت برف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔
یاک اور پہاڑی بکریوں کے ریوڑ سیاحوں کی یہاں دلچسپی کا باعث ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور چین کی سرحدی فوج یہاں دوستانہ تعلقات کی وجہ سے مشہور ہے۔اس درے کو چین اور پاکستان کے درمیان لازوال اتحاد کی علامت کے طور پر دیکھا جاتاہے۔
12۔ Khaplu
خپلو سکردو کا ایک خوبصورت گاؤں ہے۔ یہ علاقہ کبھی خپلو کے حکمرانوں کی ایک مشہور مملکت تھی۔پھر اس کی اہمیت کم ہوتی گئی۔
بیرونی دنیا کے لیے یہ خوبصورت گاؤں ایک نامعلوم مقام تھا۔ لیکن حال ہی میں آغا خان نے اس کی تزئین و آرائش کی،خپلو محل کو سیاحوں اور زائرین کے لیے کھولنے کے لئے کام کیا۔
اب سیاح اس چھوٹے سے گاؤں کا خوبصورت نظارہ دیکھ سکتے ہیں۔
13۔ Naltar Valley
وادی نلتر گلگت شہر سے تقریباً 54 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔اس وادی میں سیاحوں کے لئے گھنے جنگلات، کرسٹل صاف جھیلیں اور اسکیئنگ کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
موسم گرما میں وادی نلتر کا موسم کافی خوشگوار ہوتا ہے۔ اس وادی میں آنے کے لئے سیاحوں کو پبلک ٹرانسپورٹ دستیاب نہیں ،اس لئے سفر کے لئے یہاں جیپ کرایہ پر لینا ہوگی۔ تاہم نلتر وادی میں سیاحوں کو متعدد ہوٹل کیبن اور گیسٹ ہاؤسز دستیاب ہیں۔
14۔ Pir Sohawa
اسلام آباد میں ہر کوئی پیر سوہاوہ کے بارے میں جانتا ہے،یہ پاکستانی دارالحکومت کا ایک دلکش اورمشہور مقام ہے ،جوغیر ملکی سفارت کاروں اورسیاحوں میں کافی شہرت رکھتا ہے۔رات کے وقت یہاں سے اسلام آباد شہر کی خوبصورتی کا نطارہ کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ یہاں کےلذیذ کھانے اور خوبسورت ریستورانٹ لوگوں کی دلچسپی کی وجہ ہیں۔
15۔ Ranikot Fort
اگر آپ دنیا کا سب سے بڑا قلعہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پاکستان کے صوبہ سندھ میں قلعہ رانی کوٹ کا وزٹ کریں۔ اسےسندھ کی عظیم دیوار بھی کہا جاتا ہے۔ فن تعمیر کا یہ شاندار نمونہ جامشورو میں واقع ہے۔
تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے افراد تقریباً دو صدیوں سے موجود اس قلعے کو دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔
16۔ Baltit Fort
بلتت قلعہ پاکستان کی پرانی تعمیرات میں سے ایک ہے۔ ہنزہ میں واقع یہ قلعہ 700 سال پراناہے۔ یہ قلعہ بلتی حکمرانوں کے لیے مرکز کی حیثیت رکھتاتھا۔یہاں گورنروں کو میر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
1954 میں آخر کار اس قلعے کے مکینوں نے اسے خالی کر دیا جس کی وجہ سے دن بدن یہ قلعہ اپنی شان و شوکت کھو بیٹھا۔
آغا خان ٹرسٹ نے اب اس قلعہ کو بحال کیاہے۔ جسے اب ہنزہ کی خوبصورت ثقافت کے طور پر جانا جاتا ہے۔