پولیس گردی

پولیس گردی تحریر: نوید احمد

تبدیلی آنے کے بعدپولیس گردی کے ایک واقعہ کا عینی شاہد ہوں،اگرچہ یہ واقعہ ایک پولیس سٹیشن میں گزارے گئے چند گھنٹوں کا مشاہدہ ہے لیکن قطرے میں دجلہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پنجاب پولیس کے رویے میں تاہم کوئی جوہری تبدیلی واقع نہیں ہوئی،تین دن پہلے ایک قریبی دوست کا ڈرائیور یعقوب گاڑی نمبر RB-204ماڈل2006ء میں گوجرانوالہ سے کچھ سامان لے کر اپنے آبائی علاقہ چڑھوئی آزادکشمیرواپس جا رہا تھا کہ وزیر آباد کے قریب اس کی گاڑی ایک دوسری گاڑی سے ٹکرائی جس سے دونوں گاڑیوں کا جزوی نقصان ہوا،اس دوران پیچھے سے آنی والی گاڑیاں بھی آپس میں ٹکرائیں،سڑک پربحث و تکرار کو دیکھتے ہوئے پولیس تھانہ صدر وزیرآباد کے اہلکار موقع پر پہنچے،انہوں نے’’ مناسب‘‘ سمجھتے ہوئے آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور کو گاڑی سمیت دھر لیا،اور باقی لوگوں کو جانے دیا،دروغ بر گردن راوی ڈرائیور نے مبلغ پندرہ ہزار روپے جرمانہ بھی ادا کیا مگر تفتیشی اہلکارمسلسل دو دن تک 40سے50ہزار روپے سکہ رائج الوقت مزید بطور نان نفقہ ڈرائیور کے سفارشی سے طلب کرتا رہا،
دو دن بعد جب ہم پولیس سٹیشن صدر وزیرآباد پہنچے تو محرر سے معلوم ہوا کہ ڈرائیور یعقوب اور اس کی گاڑی ایف آئی آر تو درکنار کسی باقاعدہ رپٹ کے اندراج کے بغیر زیرحراست ہیں،تفتیشی افسر کے پاس گئے تو وہ گھوڑے بیچ کر سویا رہا،اٹھنے کی زحمت نہ کی،ایس ایچ او سے بار بار فون پر رابطہ کیا تو وہ کافی دیر بعد رات گئے تھانہ پہنچے،عینی شاہد ہوں کہ صاحب اپنی رہائش گاہ میں جا کر محصور ہو گئے،عینی شاہد ہوں کہ ایس ایچ او کا ایک قریبی دوست بھی ڈرائیور کو چھڑانے کے لیے پہنچا،اس کو رہائش گاہ کے اندر جانے کی اجازت مل گئی،اس سے معاملات طے ہونے کے بعد تھانیدار نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں بھی اپنی رہائش گاہ پر بلا لیا تاکہ ڈرائیور اور اس کی گاڑی چھوڑنے کا احسان کیا جائے،لیکن ہم نے ڈرائیور کو گاڑی سمیت تھانے میں بند کرنے کا تحریر ثبوت مانگا جو اس کے پاس نہیں تھا،عینی شاہد ہوں کہ ایس ایچ او نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے کہا کہ تحریری رپٹ کی کاپی کل شام تک ملے گی،یہ جواب سننے کے بعد باہر آ کر آر پی او اور سی پی او گوجرانوالہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی،لیکن ان کے آپریٹر حضرات نے کہا کہ رات کے تیسرے پہر یہ ممکن نہیں،دریں اثناء ایس ایچ او تھانہ صدر وزیرآباد نے حالات کا رخ بدلتے دیکھ کر ڈرائیور کو گاڑی سمیت رات گئے چھوڑ دیا،تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری،
سوال یہ ہے کہ ایک غریب ڈرائیور کو گاڑی سمیت دو دن تک حبس بے جا میں رکھنے والوں کے خلاف کاروائی کون کرے گا،سوال یہ ہے کہ بار بار ’’نان نفقہ‘‘ طلب کرنے والوں کا محاسبہ کون کرے گا،اور سوال یہ کہ قائداعظم کی تصویر والے نوٹوں کے بغیر تفتیشی اہلکار اور ایس ایچ او صاحبان کب کام کرنا شروع کریں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں