ایک شادی کی تقریب میں ایک پڑھے لکھے نوجوان سے میں نے اُس کی ملازمت کے بارے میں پوچھاکہ وہ آج کل کیا کر رہا ہے؟
اْس نے بتایا کہ جیٹھ،ہاڑ کی گرمی ہو یا پوہ،ماگھ کی سخت سردی، ایک قبیلہ سڑکوں یا محلوں میں کاٹھے انگریز کی طرح جسم کو ڈھانپے، ہاتھوں میں بیگ تھامے،مطلب مکمل انگریز کا روپ دھاڑے مختلف ہسپتالوں یا کلینک کے باہر نظر آتا ہے، جنہیں آپ لوگوں طبعی نمائندہ(میڈیکل ریپ) کے نام سے جانتے ہیں، میں بھی اِسی قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں،
میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ یار!!!!!! دل کی گہرائیوں سے اپنے قبیلے کا تعارف کروانے کا مقصد؟،،،، تونوجوان نے جواب میں حیرت انگیز بات سنائی کہ ہم ہر گلی محلے،ہر بازار میں موجود کلینک پہ جاتے ہیں،ہر ڈاکٹر کے ٹائم ٹیبل کے مطابق ( وہ کتنے بجے میڈیکل ریپ کوملتا ہے)ہمارا قبیلہ وہاں پہنچ جاتا ہے، کچھ کلینک کے باہر تو لکھا ہوتا ہے کہ میڈیکل ریپ صرف جمعہ کے دن آئیں ،پھر اُس دن تمام کمپنیوں کے نمائندے اُس ڈاکٹر کے کلینک پہ ایسے جمع ہوتے ہیں جیسے اندر کوئی چاول کی دیگ بانٹ رہا ہے،لیکن جنابِ ڈاکٹر صاحب شفقت اُسی پہ فرماتے ہیں جس سے کوئی ڈیل ہوئی ہو،باقیوں کا اللہ تعالیٰ وارث.
لیکن نمائندہ ڈاکٹر صاحب کے پاس کمپنی کی نئی پراڈکٹ کا تعارف پیش کروانے ایسے جاتا ہے، جیسے کوئی منچلہ لڑکا اپنی گرل فرینڈکی گلی میں اور ڈاکٹر صاحب کو قائل کرتا ہے کہ اْس کے پاس سب سے اچھی میڈیسن ہے،جس کا ریٹ بھی کم ہے, ڈاکٹر صاحب اْس نمائندے کا پورا بیان ایسے سنتے جیسے جمعہ کے روز لوگ مسجد کے مولوی کی تقریر سنتے ہیں،یہاں تک کہ ہمارے پورے قبیلے کو اپنی اہلیہ کی سالگرہ یاد ہو نہ ہو لیکن ڈاکٹر کی زوجہ محترمہ کی سالگرہ دل پہ لکھی ہوتی ہے کیونکہ ڈاکٹر صاحب کے گھر کیک اور تحفہ پہچانا ہوتا ہے،خیر بیگم تو گھر کا جی ہے یہاں توکسی ڈاکٹر کو گرل فرینڈلاہور،کراچی ،مری یا اسلام آباد جیسے شہر میں گھومنے جانے کا بول دے ،تو اُس مزے دار سفرکا خرچہ بھی ہماری کمپنیاں ادا کرتی ہیں، بڑی کمپنیاں ڈاکٹر صاحب کو فیملی کے ہمراہ عمرہ بھی کرواتی ہیں،یورپ اور دبئی کی سیر تو معمولی سی بات ہے،اکثر ڈاکٹر تو یہاں تک گرجاتے ہیں کہ اُن کے گھر نہانے کا صابن اور بالٹیاں بھی کمپنیاں دیتی ہیں،
میں حیران اور گہری سوچ میں گم ہو گیا کہ ڈاکٹری ایک معزز پیشہ ہے اور اس شعبہ کو مسیحائی پیشے کی وجہ سے بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے،لیکن یہ سب !!!!!!پھر میں نے پوچھا کہ اگر ڈاکٹری نسخہ کمپنی کے لگائے ہوئے مال پر بنتا ہے تو مریض کا کیا بنتا ہو گا؟،،،،تو پتہ چلا کہ مریض سے ہی تو یہ تمام اخراجات پورے کیے جاتے ہیں، مریض کی بیماری بے شک ظاہر ہو یانہ ہو جس کمپنی نے ڈاکٹر صاحب کو فائدہ دیا ہوتا ہے اُس کی ادویات مریض کوٹھونس دی جاتی ہیں،اور اکثر ڈاکٹر اپنا اور ڈیل کا سوچتے ہوئے سرکاری ہسپتال سے مریض کو ذاتی کلینک پہ شفٹ ہونے کا مشورہ دیتے ہیں.
ابھی بات چیت ہو ہی رہی تھی کہ شادی کی تقریب میں ایک ڈاکٹر صاحب کی آمد ہو گئی اور وہ بیچارہ (میڈیکل ریپ)یہ سوچ کر خدمت کرنا شروع ہو گیا کہ اگراِس ڈاکٹرسے دنیا میں صلہ نہ ملا تو اِس خدمت کی نیکی مل ہی جائے گی ،،