جیسے کچھ ملکوں میں غربت،لاقانونیت اور بادشاہت نسل در نسل منتقل ہوتی ہیں،اسی طرح کئی فضول سی کہانیاں بھی سینہ بہ سینہ سرایت کرتی چلی آ رہی ہیںیہ اسی قبیل کی ایک کہانی ہے جو ہم نے بچپن میں اپنے بڑوں سے سنی۔ بڑوں نے اپنے بچپن میں بزرگوں سے سنی تھی اور بزرگوں نے اپنے بڑوں سے۔۔ آج ا نئے زمانے میں ہم آپکو بھی یہ کہانی سنا دیتے ہیں ۔
گیدڑوں کا ایک ناہنجار گروہ شبینہ وارداتوں کے لئے بہت مشہور تھا۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ اس گروہ نے جاٹ کے کھیت کو نشانے پہ رکھ لیا۔ وہ سر شام جنگل سے لانگ مارچ کرتا ہواکھیت میں وارد ہوتااور خربوزوں کی ’’ضیافت بالجبر‘‘اڑانے کے بعد جنگل کی راہ لیتا۔ تنگ آکر جاٹوں نے اپنے ایک ہنگامی اجلاس میں گیدڑوں کے دانت کھٹے کرنے کا منوبہ بنایا۔
وہ رات کو ڈنڈوں سے مسلح ہو کرکھیت کے قریب چھپ کر بیٹھ گئے گیدڑوں کے گروہ کا سرغنہ ’’جوری‘‘ نامی ایک عمر رسیدہ بزررررگ تھا۔اس رات بھی وہ ’’ جوری‘‘ کی قیادت میں خراماں خراماں آئے اورکھیت میں داخل ہو کر فصل اجاڑنے میں جت گئے۔ ابھی وہ اس کارروائی میں مصروف تھے کہ اچانک جاٹوں نے نکل کر ان پر حملہ کر دیا۔
اس نا گہانی افتاد پر باقی گیدڑ توخوفزدہ ہو کر بھاگ گئے مگر ’’جوری‘‘ اپنی ’’برررررگی ‘‘ کی وجہ سے زیادہ پھرتی نہ دکھا سکااور جاٹوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ وہ ڈنڈے کھاتابھگوڑے گیدڑوں کو اپنی مدد کے لئے پکارتا رہا مگر اسکی یہ التجائیں صحرا میں آوازلگانے کے برابر تھیں، جنہیں سننے والا کوئی نہیں ہوتا۔نتیجتاََاسکی سپاہِ بے فیض پلٹ کر نہ آئی۔
’’جوری‘‘منجھا ہوا اور شعبدہ باز قسم کا لیڈر تھاجس نے اپنی زندگی میں حیرت افزاء کرتبوں کے کئی سرکس لگائے تھے۔جاٹوں کی طرف سے مناسب تواضع پر جان پر بن آنے والے مرحلے سے گزرنے کے بعد’’جوری‘‘ جب جنگل میں پہنچاتو اس نے تمام گیدڑوں کو اکھٹا کر کے جلسہ عام منعقد کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’بے وقوفوووووو!!!!!میں تمھیں بلاتا رہاکیونکہ میں جاٹوں سے مذاکرات کر رہا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ اگر خربوزے کھانے ہیں توچوری کی بجائے قانونی طریقے سے پرمٹ بنوا کے کھاؤ‘‘۔
گیدڑہونقوں کی طرح اس کو دیکھ رہے تھے۔’’جوری‘‘ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے اپنا خطاب جاری رکھا’’برحال!!!!! تمھارے لئے خوشخبری ہے کہ جاٹوں نے تمھیں اپنی کفالت میں لے لیا ہے اور میں پرمٹ بنوا لایا ہوں۔اب تم سب قانونی طریقے ے خربوزے کھانے کے لئے تیار ہو جاؤ‘‘۔
چونکہ گیڈر ازل سے فکری طور پر کنگال اور وژن سے عاری ہوتے ہیں،نیز حماقتوں پر انکی اجارہ داری بھی دنیا بھر کو معلوم ہے۔ لہذا یہ طائفہ اس رات خوشی سے دیر تک بھجن گاتا ، تالیاں بجاتااور ’’جوری‘‘ کے گردجھومر ڈالتا رہا۔ انہوں نے ’’جوری‘‘ کی ولولہ انگیز قیادت پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہار کیامگر کسی نے بھی پرمٹ دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی۔
اگلی رات کوتاہ بین گیڈروں کا کارواں ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ ’’جوری ‘‘کی قیادت میں اپنی منزل کی طرف روانہ ہوا۔ادھر پچھلی رات کی ناکام کارروائی کے بعدجاٹوں نے اپنے منصوبے میں تبدیلیاں کیں اور پہلے سے کہیں زیادہ تعداد میں ڈنڈا بردار فورس نے معہ جال کھیت کوچار اطراف سے خفیہ طور پر گھیر لیا۔
’’گروہِ گیدڑاں‘‘ناچتا گاتا جائے واردات پر پہنچاتو ’’جوری‘‘کھیت سے ذرا ہٹ کر جنگل جانے والے راستے پر چوکنا ہو کر بیٹھ گیااور اپنی فورس کو حکم دیا کہ شیر بن کر خربوزوں پر ٹوٹ پڑو، اگر کوئی جاٹ آگیا تو میں اسکو پرمٹ دکھا کر اسکا منہ بند کر دوں گا۔ جب تمام گیدڑ بے خوفی اور اطمینان سے کھیت میں داخل ہو کر مصروف عمل ہو گئے تو جاٹوں نے تمام اطراف سے پیش قدمی کرتے ہوئے اچانک کمانڈو کارروائی کی اور سارا گروہ جال میں پھنس گیا۔
’’جوری‘‘ جو دور سے ہی بھاگنے کے لئے تیار کھڑا تھا، یہ منظر دیکھتے ہی تیز قدموں سے جنگل کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔جاٹوں نے ڈانگ سوٹے نبھالنے شروع کیے تو گیدڑوں کے اوسان وغیرہ وغیرہ ہو گئے۔انہوں نے چیختے ہوئے ’’جوری‘‘ کو پکارا اورجاٹوں کو پرمٹ دکھانے کی دہائی دی۔’’جوری‘‘ دور جا چکا تھا۔ وہ گیدڑوں کا شور سن کر رکااور ایک اونچے ٹیلے پر چڑھ کرباآواز بلند خطاب کیا
بچووووووو!!!!! یہ سارے جاٹ ان پڑھ ہیں انہیں پرمٹ دکھانے کا کیا فائدہ ؟؟؟؟تم ان سے ’’مذاکرات ‘‘ کے بعد اپنی رہاشگاہوں میں پہنچ جانا،جیسے کل میں پہنچا تھا‘‘۔ ’’جوری‘‘ یہ مختصر مگر جامع خطاب کر کے سرپٹ دوڑااور اپنے عافیت کدے میں جا کر دم لیا‘‘۔۔۔
یہ کہانی بہت پرانی اور بوسیدہ ہو چکی ہے۔عصرِ حاضر میں ایسی لغو اوربیہودہ کہانیاں متروک ہو چکی ہیں۔تو عقلِ قل ہو نے کے مرض میں مبتلاخود ساختہ ’’جوررررررری‘‘خواہ مخواہ انکو دہرانے کی سعی لاحاصل کر رہے ہیں،جن کا حقیقت سے اب دور تک کا بھی واسطہ نہیں۔ اس کہانی میں سچ تو یہ ہے کہ شعبدہ باز ’’ جوری‘‘کے پاس کبھی کوئی پرمٹ،کوئی مینڈیٹ نہیں ہوتا۔ یہ اپنی محرومیوں کا بدلہ لینے کے لئے خود کو ’’پرمٹ ہولڈر‘‘ قرار دیکردوسروں کو کھیت اجاڑنے کی دعوت دیتے ہیں اور جب دوسرے پھنس جاتے ہیں تو یہ’’جوررررری‘‘ اپنے عافیت کدوں میں چھپ جاتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ چور دروازوں سے خربوزے کھانے والے خود ساختہ’’پرمٹ ہولڈروں‘‘سے عوام بڑا بے وقار سلوک کرتے ہیں۔۔۔آجکل کچھ ایسے ہی ’’جوری ‘‘ جہلم کی سیاست میں اپنے اپنے تائیں ’’پرمٹ ہولڈر‘‘ بنے ہوئے ہیں۔سمجھ تو گئے ہوں گے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
Load/Hide Comments