سنا تھا وقت کسی کے لیے نہیں رکتا کوئی مرے یا جیے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتاگھڑی کی سوئیاں بھی اپنی رفتار سے چلتی رہتی ہیں کیلنڈر پر لکھے ماہ و سال بھی اپنے اپنے مقررہ وقت پر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن جس گھر میں تم رہتے تھے وہاں 19مارچ کے بعد سے وقت رک گیا ہے وہاں گھڑی کی سوئیاں چلنا بھول گئی ہیں غم اور اداسی کی گھنی چھاواں اس گھر کی دیواروں پر بیٹھیں ڈراتی رہتی ہے جہاں کبھی صرف خوشی کا اجالا تھا جہاں آنگن میں ہنسی کی دھوپ ناچتی تھی کس کو معلوم تھا کہ 10جولائی 2001کو طلوع ہونے والے سویرے کا سورج صرف16سال بعد ہی غروب ہو جانا ہے بلا کسی کو خبر تھی کہ ایف جی سکول کا کیپٹن پل بھر میں پورے سکول کواداس کر جائیگا کچھ اس طرح سے بچھڑے گا کہ ہر آنکھ اشکبار ہو جائیگی جسکے آخری دیدار کیلئے جنازہ گاہ میں جگہ کم پڑ جائیگی اس کو یہ سمجھانے سے میں قاصر ہوں کہ وہ کلی تھی جس کو پھول بننے سے پہلے کیوں توڑ ڈالا۔جسکی خوشبوں نے ابھی باغ کے مکینوں کو ابیار کرنا تھا وہ اتنی جلدی کیوں ختم ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ بیگ کا اپنے والدین اور دوستوں کے نام فرضی خط
ازطرف ۔۔۔۔۔۔۔حمزہ بیگ
اسلام و علیکم :
ابو ،امی ،چھوٹی بہنوں اور میرے عزیز دوستوں آپ لوگ مجھے امید ہے کہ ٹھیک ہوگے۔۔ ۔۔پانچ دن ہو گئے ہیں آپ نے میرا پوچھا تک نہیں اسکول یا ٹیوشن سے تھوڑا لیٹ ہو جاتا تھا تو کہتے تھے کہ ‘‘میرا شہزادہ’’ اتنی دیر کہاں لگا دی میں دروازے پر کتنی بار دیکھنے گی تھوڑی دیر اگر میں نہ آتا تو کہتی تھیں کہ میری جان ہی نکل جاتی اور اب پانچ دن سے میرا پوچھا بھی نہیں آپ سے میری کٹی ۔۔۔۔اچھا چلو دوستی کرلیں۔۔۔ اپنی دو انگلیاں ایسے کریں اور میری دو انگلیوں سے ملائیں۔۔ ۔۔اب اس کو چومیں۔۔۔۔ اب ہم پکے دوست بن گئے۔امی ،ابو آپ کو پتہ ہے میرے تمام کلاس فیلوز اور اسکول کے فرینڈ کے ساتھ ناراضگی ہوتی تھی تو میں جلد ہی دوستی کر لیتا تھا۔۔۔۔ پاپا میں نے آپ کا وہ سٹیٹس بھی فیس بک پر دیکھا تھا جس میں آپ نے لکھا تھا کہ( حمزہ بیگ نے پہلے اپنے تایا کو پھر مجھے کہا پریشان ناں ہوں یہ دیکھیں میرے ہاتھوں اور پاوں کی انگلیاں ٹھیک ٹھاک حرکت کر رہی ہیں اب میں اسے کیا بتاتا۔۔۔ پْتر جی تمہارا صبر و ہمت دیکھ کر ہم سب ہمت پکڑ رہے تھے اور یار تم تو خود خاموشی سے وینٹی لیٹر پر چلے گئے ہویہ تو اچھی بات نہیں۔۔۔انشاء اللہ ” اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ اور سب کی دعاؤں سے امید ہے کہ تم پہلے جیسی ہمت و حوصلہ کرو گے۔) پاپا مجھے علم ہے کہ آپ ایک بہادر انسان ہے آپ نے تمام مشکلات کا خوبصورتی سے سامنا کیا ہے اور اس مشکل وقت میں آپ امی ،بہنوں اور میرے عزیز دوستوں کو مایوس نہیں ہونے دینگے ۔مجھے وہ وقت یاد ہے جب امی کے ڈائلسز ہو رہے تھے تب آپ نے امی کو جو ہمت و حوصلہ دیا تھا آج تک نہیں بھول پایا ۔پاپا جی آپ نے ہمت دیکھانی ہے آگے سے بھی زیادہ اب ۔۔۔۔۔مجھے اس بات کا بھی احساس ہے کہ آپ اندر سے ٹوٹ چکے ہیں مگر مجھے آپ پر پورا یقین ہے اور آپ میرے یقین کو نہیں توڑیں گے۔۔۔آپ نے سب کو ہمت صبر اور حوصلے کی تلقین کرنا ہے۔۔۔۔ امی۔۔۔امی ۔۔۔آپ پریشان نہ ہونا یہ جگہ بہت خوبصورت ہے روز میرے لیے بہت زیادہ گفٹ آتے ہیں۔۔۔۔امی یہاں ہر طرف مینگو لگے ہوئے ہیں لیکن امی آپ کو تو پتہ ہے کہ جب میں گھر میں ہوتا تھا تو پاپا مجھے مینگو کاٹ کے دیتے تھے
پاپا کہاں ہیں؟؟؟ مجھے پتہ ہے وہ یہی کہیں گے بیٹا میں تم سے ملنے نہیں آسکا کیونکہ آفس میں بہت کام تھا۔۔۔۔ پاپا کو کہہ دینا کہ میں آپ سے ناراض ہوں پورے پانچ دن سے نہیں آئے ملنے نہ ہی کال کی۔۔۔امی یہاں۔۔۔ ہر سو روشنی ہی روشنی ہے اچھے اچھے لوگ ہیں مجھے ڈر بھی نہیں لگتا اب اسکے ساتھ ساتھ یہاں پرمِلک کے دریا بھی ہیں۔۔۔۔ آپ مجھے اپنی گود میں لیٹا کر میرے بالوں میں ہاتھ پھیر تی تھیں اور چندا ماموں کی کہانی سناتی تھیں تب مجھے نیند آتی تھی۔۔۔ لیکن امی اب آپ تو آتی بھی نہیں ہیں میں پانچ دن سے نہیں سویا ہوں۔۔۔یہاں نیند ہی نہیں آتی۔۔۔پاپا۔۔۔ یہاں میرے سکول کے نہ دوست ہیں اور نہ ہی ٹیچرز ۔۔۔۔۔میرے ایف جی سکول کے دوستوں کو پاپا کہنا کہ اب آپ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ نہ اب میں نے کار تیز چلانی ہے اور نہ ہی انہوں نے میرے ساتھ سفر کرنا ہے اب میں یہاں سارا دن اپنے نئے دوستوں کے ساتھ کھیلتا ہوں امی منع کرتی ہیں نہ پاپا۔۔۔۔۔۔گڑیا کو پاپا کہہ دینا کہ جاؤ اب میں تمہیں کبھی تنگ نہیں کروں گا نہ تمہاری چیزیں خراب کروں گا۔۔ ۔۔۔۔۔۔میرے ٹیچرز کو کہنا کہ حمزہ آپ کو یہاں بہت یاد کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔پاپا آپ امی کو حوصلہ دینا اور بتانا کہ یہاں انٹیاں بھی ہے جب ان سے پوچھاکہ آپ کون ہیں توسب کہہ رہی تھیں کہ ہماراا نام ‘‘حور’’ہے امی بھلا سب کا نام ایک جیسا تھوڑی ہوتا ہے ، جھوٹی کہیں کی۔۔۔۔بہرحال پاپا امی کو بتانا وہ میرا یہاں پر بہت خیال رکھ رہی ہیں پانچ دنوں سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے پیار ے بابا جان مجھے علم ہے کہ آپ محبت کے جذبات کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی غصہ ہو کر وہ ہی جملہ بولتے تھے جو میں سنتے سنتے بڑا ہو ا تھا اور امی جان جب ناراضگی کی حالت میں بولا کرتی تھیں کھانا کھا لو کھا لو مر جاواں گی تو پھر کون نخرے اٹھائے گا وہ تو مجھ سے پہلے مرنے کے لیے تیار بیٹھی تھی اور مرنے سے پہلے میرے سب نخرے اٹھانا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔۔مجھے پتہ ہے کہ ماماں جان میرا نام پکارتے ہوئے وہ اپنے تصور میں گلے لگا لیتی ہے اور پھر میرا چاند میرا چاند کہتے ہوئے بیٹھی مسکراتی چلی جاتی ہے روتے روتے کہتی ہے کہ ہمارا چاند ہم سے بہت دور چلا گیا ہے اور اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔امی مجھے پتہ ہے آپ کو میری رائٹنگ اچھی نہیں لگے گی مگر امی یہاں کوئی میرا ہاتھ پکڑ کر نہیں لکھا رہا یہ سب میں خود لکھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔اچھا پاپا ،ماماں اب میں لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں مجھ سے اور نہیں لکھا جاتامیرے ہاتھوں میں درد ہو رہا ہے لیکن جب میں آپ کے پاس ہوتا تھا اور میرے ہاتھ درد کرتے تھے تو آپ چھومتی تھیں۔۔۔ چلیں اب اس خط کو چھوم لیجئے گا۔۔ ۔۔میرے ہاتھ ٹھیک ہو جائیں گے۔۔۔امی آپ اپنا خیال رکھنا اور ہاں ہر وقت زور سے کلمہ پڑھتی رہا کریں تاکہ سب کو آواز جائے ۔۔۔۔ میری یادیں سب گھر والوں کو جینے نہیں دیتیں ہونگی مگر پا پا آپ تو سمجھتے ہیں نہ کہ ہر کسی نے جانا ہوتا ہے کوئی پہلے اور کوئی بعد میں مگر پاپا وقت آہستہ آہستہ آپ کے دکھوں کا سہارا بن جائے گا اور اس کے رستے ہوئے زخم بھر جائیں گے۔پاپا سب گھر والوں کو بہت پیار کرنا اور کہنا کہ آپ کے چھوٹو موٹو نے سلام بھیجا ہے۔
فقط ۔۔۔۔حمزہ بیگ ولد توصیف بیگ
با اصل مقام انسان