تو قادر و مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہء مزدور کے اوقات
پاکستان تمباکو کمپنی جہلم سمیت دنیا بھر میں دکھ، اذیت، ذلت، بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، بے روزگاری کا محنت کشوں کو سامنا کرنا پڑرہا ہے، اس لیے کہ ان کا خون چوس کر سرمایہ دار اور جاگیردار کروڑپتی سے ارب پتی اور ارب پتی سے کھرب پتی بنتے چلے جارہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے جو سرمایہ داری کو اجارہ داری میں بدل دیتی ہے۔ اسی قسم کا استحصال سیگریٹ فیکٹری جہلم کے محنت کشوں کا کیا جا رہا ہے۔ متعدد مرتبہ مزدوروں نے این جی اوز، انسانی حقوق کی تنظیموں ، معزز عدالتوں اور حکومت کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دروازوں پر دستک دی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، محنت کشوں کو جبری فارغ کرنے کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں ۔ بااثر مالکان نے محنت کشوں کو مستقل کرنے کی بجائے، ان سے ٹھیکیداری نظام کے تحت کام لینے کو ترجیح دینا شروع کر رکھی ہے ۔ پاکستان کی 62 سالہ تاریخ میں مزدوروں کو مالکان کی طرف ملنے والا بونس آٹے میں نمک کے برابر ہے،قابل زکر امر یہ ہے کہ ٹھیکیداری نظام کے تحت فیکٹری کے اندر کام کرنے والے محنت کشوں کو کھانااور دیگر مراعات بھی نہیں دی جاتیں۔ فیکٹریوں میں کام کرنے والے عارضی مزدوروں کو مستقل اور رجسٹرڈ بھی نہیں کروایا جاتا.مزدور کی ساری زندگی 2 وقت کی روٹی کے حصول کے لئے سرگرداں رہنے میں ہی بسر ہو جاتی ہے۔ یوں زندگی کی دیگر سرگرمیوں میں اس کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ ہر دور کی حکومت نے مزدور کی فلاح و بہبود کیلئے بلند و بانگ دعوے کئے لیکن عملاً کچھ نہ ہوسکا، مزدور کے شب و روز وہی رہے اور سرمایہ دار کی بنائی ہوئی پالیسیاں اس پر مسلط رہیں۔حکومت نے انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)کے چارٹر پر بھی دستخط کررکھے ہیں اور مزدور کی اجرت میں اضافہ، اس کے اوقات کار کا تعین ، اسے بہتر ماحول کی فراہمی اور اس کے خاندان کو تعلیم و صحت کی سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی مراعات کا اعلان بھی کررکھا ہے لیکن اس کے باوجود مزدور بدحالی کا شکار ہیں۔سیگریٹ فیکٹری جہلم کی انتظامیہ نے پاکستان تمباکو کمپنی جہلم میں کام کرنے والے 6 درجن سے زائد مزدوروں کو محض اس لئے جبری ریٹائر کرنے کے تحریری احکامات جاری کئے کہ محنت کشوں نے دو سال کی محنت کا پھل طلب کیا فیکٹری انتظامیہ نے طے شدہ معاہدے کے مطابق محنت کشوں کو ہر 2 سال کے بعد حاصل ہونے والے منافعے سے مزدوروں کو مرعات دینا ہوتی ہیں ، اس طرح رواں ماہ سیگریٹ فیکٹری کی انتظامیہ نے محنت کشوں کو مراعات دیناتھیں جس پر عملدرآمد سے قبل ہی 80محنت کشوں کے چولہے ٹھنڈے کرنے کی ٹھان لی گئی، درجنوں مزدوروں نے اپنی آواز ارباب اختیار تک پہنچانے کے لئے جی ٹی روڈ کا لا گجراں سیگریٹ فیکٹری سے ملحقہ دیوار کے ساتھ احتجاجی کیمپ قائم کر کے لاہور سے راولپنڈی، اور راولپنڈی سے لاہور جانے والے شہریوں کے سامنے ا پنے حقوق کے لئے دھرنا دے رکھا ہے ، لیکن حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی آج ایک ہفتہ گزر چکا ہے ، محنت کش جی ٹی روڈ پر چلارہے ہیں لیکن ان کی فریاد سننے کو کوئی تیار نہیں، حکمرانوں کو 80لوگوں کے چولہے بھجنے سے بچانے کے لئے کردار اداکرنا چاہیے، تاکہ اپنی زندگی کے خوبصورت 40 سے 50 سال سیگریٹ فیکٹری پر نچھاورکرنے والے مزدوروں کا حق انہیں مل سکے اور طے شدہ معاہدے کے مطابق سیگریٹ فیکٹری سے ریٹائرڈ ہونے والے مزدوروں کے بچوں کو فیکٹری میں بھرتی کیا جائے تاکہ وہ اپنے والدین اور بہت بھائیوں کی کفالت کا بیڑا اٹھا سکیں
Load/Hide Comments