تحریر و ریسرچ:
ثریا منظور،کیمیکل سائنسز انسٹی ٹیوٹ، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی، ملتان، پاکستان.
عامر کیانی ،صحافی ،نمائندہ ڈان ٹی وی جہلم
محمد سہیل ،لزبن، پرتگال یونیورسٹی.
فریحہ منظور،گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین کہوٹہ
“چائنہ نژاد امریکن وائلن نواز ایم اے یو یو کا کہنا ہے کہ “ہماری سوچ اور تجربے کے حسین امتزاج سے ہماری ثقافتی طاقت جنم لیتی ہے،”
وادی کیلاش ایک خطہ ارضی ہے جو اپنی منفرد روایات کی بدولت صدیوں سے اپنی ثقافتی شناخت قائم رکھے ہوئے ہے،اس کی ثقافت کے عجیب اور امتیازی رنگ دنیا بھر سے سیاحوں اور انسانی علوم کے ماہرین کو اپنے طرف کھینچتے ہیں،کیلاش قبائل کو غیر مذہب قبائل یا کافرستان بھی کہا جاتا ہے کیونکہ دوسرے علاقوں کی طرح عرب ان لوگوں کی ذہن سازی نہیں کر سکے اور نہ ہی ان کا عقیدہ تبدیل ہوا،لہذا یہ لوگ اپنے عقیدے پر قائم رہے،
فیشن کے رجحانات:
کسی ثقافت کی شناخت میں لباس اہم کردار ادا کرتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ یہ اخلاقی اقدار کا تاریخی حقائق کے ساتھ تعین کرتا ہے،کیلاش کی ثقافت کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے روایتی لباس کو کئی نسلوں سے اپنایا ہوا ہے،یہ لباس در اصل ایک سیاہ چغہ ہوتا ہے جس پر رنگا رنگ دھاگے لگے ہوتے ہیں جن کو مقامی زبان میں”کو”(Cou)کہا جاتا ہے،جبکہ سر کے اوپر زیورات ہوتے ہیں جن کو “Kupas” کہا جاتا ہے،جو دن کے اوقات میں پہنا جاتا ہے،ان کی تیاری میں ہاتھ سے بننے والی مشین استعمال کی جاتی ہے،اس لباس کا بناؤسنگھار موتیوں سے کیا جاتا ہے، جن کی تلاش کے لئے مقامی خواتین کو کافی سفر کرنا پڑتا ہے،یہ موتی سر کے اوپر بنے ہوئے “Kupas”میں لائن کے طور پر اس طرح استعمال کی جاتی ہیں کہ ہر لائن کے ساتھ عمر ،سماجی رتبہ اور دولت کا تعین کیا جاتا ہے،ان”Kupas”کو ڈھال نما ڈیزائن کی طرح سجایا جاتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ ان زیورات میں پھولوں کے ڈیزائن بھی استعمال ہوتے ہیں جو نوجوان لڑکیوں میں کافی مقبول ہے،
کیلاش میں ایک عام خیال پایا جاتا ہے کہ یہ ڈھال نما ڈیزائن پوری برادری کو برائیوں اور بد قسمتی سے بچاتا ہے،
سیاہ رنگ کے لباس کے پیچھے بھی جو فلسفہ کارفرما ہے،وہ یہ ہے کہ یہ بیک وقت دونوں طرح کے جذبات یعنی خوشی اور غمی کی عکاسی کرتا ہے،لباس کے دیگر اہم حصوں میں “Sus’t”(سر کا چھوٹا چغہ) اور پٹی (کمر بیلٹ) شامل ہیں،سر کے اوپر کڑھائی نما کپڑاRing کی شکل میں موجود ہوتا ہے،یہ کپڑے عام طور پر گھریلو جانوروں کی اون سے بنائے جاتے ہیں اور رنگ برنگے اخروٹ، چاندی اور موتیوں سے مزین ہوتے ہیں،یہ زیب و آرائش زندگی کے مختلف پہلوؤں مثلاََسماجی رتبے،رویے،اندرونی جذبات اور اقتصادی حیثیت کی عکاسی کرتے ہیں تاہم اس مین مذہبی عنصر شامل نہیں.
اس کمیونٹی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ اپنی روایات اور انفرادیت کو چھوڑے بغیرجدت کو بآسانی اپنے اندر سمولیتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی پرانی روایات کو جدت میں ڈھال رہے ہیں،آج کل مصنوعی دھاگے پرانی تکنیک کے ساتھ مختلف ملبوسات میں استعمال ہو رہے ہیں،یہ ملبوسات ان کے تہواروں کا اہم جزو ہیں،خصوصاََ کسی کی موت کے موقع پر سوگ کے اظہار کے لئے کیلاش خواتین مردہ دفن ہونے تک اپنے سر سے ٹوپی نما کپڑا اتار کر اپنے بال کھلے چھوڑ دیتی ہیں.
رات کے لباس میں شلوار،قمیض اور شال شامل ہے،کیلاش خواتین کا اپنی ثقافت سے مضبوط تعلق اس بات کا اظہارکرتاہے کہ وہ اپنی اقدار سے کس قدر مخلص ہیں، جس طرح لوگوں کے رویوں اور ثقافت کے مختلف پہلوؤں سے کسی جگہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے،اسی طرح وادی کیلاش کا حسن خواتین کے بناؤ سنگھار میں مضمر ہے،موتیوں سے مزین ان کے زیورات گردن کو ڈھانپ لیتے ہیں،انسانی علوم کے بعض ماہرین کے مطابق خواتین کی گردن میں ہار کی تعداد ان کے خاوند یا والد کے وقار کی ترجمانی کرتے ہیں اور کسی حد تک خاندان کی دولت کا اظہار بھی ہوتا ہے،یہ موتیوں کی مالا عزت اور محبت کی علامت ہوتی ہے،دلہن شادی کے موقع پر اپنے سسرال کی خواتین کی جانب سے موتیوں کا ہار وصول کرتی ہے،جو ایک نئی دلہن کے لئے گرم جوشی کا مظاہرہ ہوتا ہے،
دوسری جانب کیلاش مرد شلوار قمیض کے ساتھ چترالی ٹوپی اور صدری پہنتے ہیں،ماضی میں مرد ملیشیا کی کالی شلوار پہنتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتے ہوئے جدید رجحانات کو اپنا لیا ہے،
کئی صدیوں سے وادی کیلاش کے باسیوں نے کامیابی سے اپنی انفرادیت کو قائم اور محفوظ رکھا ہے،ان کا قابل فخرثقافتی ورثہ لچک اور جدت کے ساتھ اگلی نسل کو منتقل ہو رہا ہے،یہی وجہ ہے کہ ان کا ثقافتی ورثہ دنیا میں ان کی شناخت کا ایک ذریعہ ہے،