مندری کے دونوں اعتراض درست تھے میں خود بڑے عرصے سے محسوس کر رہا ہوں کہ میری تحریر میں ایک بیزاری ، ایک لاتعلقی سی آگئی ہے وہ تلخی، وہ آگ اور وہ سلگتا ہو ادرد ختم ہو تا جارہا ہے ، جو اس تحریر کی پہچان تھا، ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟؟ میں اکثر خود سے سوال کر تا ہوں ہر بار میں خود کو یہی جواب دیتا ہوں کہ کوئی نیا موضع ، کوئی نیا ایشو نہیں میں نے ’’مندری جی ‘‘ کو بھی یہی جواز پیش کیا میں نے اس بتایا کہ مندری جی مہنگائی پر کتنے کالم لکھے جاسکتے ہیں، ؟؟؟ بیروز گاری ، جہالت اور بیماری پر کوئی کہاں تک لکھ سکتا ہے ؟؟؟ بدامنی ، حکومتی رٹ ، بے حسی، لوٹ کھسوٹ ، کرپشن ، لاقانونیت ،دہشت گردی ، اور سیاسی مکر وفریب پر کتنے ٹن مضامین چھاپے جاسکتے ہیں ؟؟؟؟؟آخر انسانی دماغ کی بھی ایک حد ہوتی ہے آپ سیاپا بھی ایک حد تک کرسکتے ہیں ، بچہ ماں کو کتنا پیار ا ہوتا ہے بچہ مر جائے تو ماں بین کرتی ہے، روتی ہے چلاتی ہے لیکن کتنی دیر ؟؟؟؟
ایک گھنٹہ، ایک دن، ایک ہفتہ، آخر بین ، چیخوں ، سسکیاں آہوں میں بدل جاتی ہیں دل مضطرب کو قرار آجا تاہے ، ایک ہلکی سی کسک، درد کی تھوڑی سی آہٹ باقی رہ جاتی ہے ۔ مندری جی کو بتایا کہ کالم نویسوں کے کالم بھی ایک بین ایک چیخ ہوتے ہیں یہ بین یہ چیخ بتاتے ہیں کہ لوگو تمہارے ساتھ ظلم ہورہا ہے ، تم لٹ گئے ہو، تم برباد ہو رہے ہو، اس چیخ ، اس بین پر لوگ متوجہ ہو جائیں اور ظالم ٹھٹھک کر رہ جائے تو کالم اور کالم نویس کافرض پورا ہو جاتا ہے لیکن اگر ظالم ان چیخوں ، بینوں کے باوجود ظلم کرت رہے ، ایک لمحے کیلئے اس کا ہاتھ نہ رکے، اس کے ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ نہ آئے، تو وہ چیخ ، وہ بین فضائی آلودگی کے سوا کچھ نہیں، لوگ بھی اس بین کو معمولی سمجھ کر روٹین کا درجہ دیں تو یہ بین جنگل میں ایک جھاڑی ، سوکھی سڑی کچلی گھاس سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ، چوکیدار کے جاگتے رہو کے اعلان سے اگر چور گھبرا جائیں نہ اہل محلہ کی آنکھ کھلے تو چوکیدار کیا کرئے ؟؟؟اسکی پتلیوں میں بھی نیند ہچکولے لے گئی اور اس کا ضمیر بھی جمائیا ں لے گا ، یقین جانئے کہ جب لکھنے بیٹھا تو خود سے سوال کرتا ہوں کہ کس کیلئے لکھ رہا ہوں ؟؟؟ ان لوگوں کیلئے جو غلامی سہنے کی عادت، زیادتی برداشت کرنے کی خو جن کے نس نس میں بس چکی ہے جو ظلم کو افسانہ سمجھ کر پڑھتے ہیں جو اپنے قتل کے گواہ پر ہنستے ہیں میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ بیل کو لیکچر کے ذریعے چیتا نہیں بنا سکتے، بھڑےئے کے دل میں بھیٹر کیلئے ہمدردی نہیں جگا سکتے، لہذا صاحبو سچی بات یہ ہے کہ سیاپے کی یہ نائیں تھک چکی ہے آخر قبرستان میں اذان کی بھی حد ہوتی ہے ، دوسرا اعتراض کہ میں نے عرصہ دراز سے سیاستدانوں کے وہ رنگ دیکھے کہ لفظ سیاست سے بو آنے لگی ہے مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کسی کچرا گھر کی دیوار پر بیٹھا ہوں ، ایسی دیوارجس میں اصول، انصاف، وفاداری ، ایمانداری، ضمیر نامی ہر وہ اصول سڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ایک درندہ اشرف المخلوقات بنتا ہے ، ان اوصاف، خوبیوں کی لاشوں میں کیڑے پڑتے نظر آتے ہیں ، گزشتہ ایک سال سے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ جو اپنے محسنوں کو گالیوں سے نوازتے ہیں ، میں نے فوجی حکمرانوں پر تنقید کرنے والوں کو ان کے تلوے چاٹتے دیکھا ہے میں نے مشرف دور میں کھلی آنکھوں سے اشارے کے بغیردمیں ہلتیں ، زبانیں نکلتی دیکھی ہیں جو لوگ اپنی انا ، اپناضمیر، اپنی زبان گروی رکھ کر جنم لتے ہیں ان سے کیا امید وابستہ کیا جاسکتی ہے ؟ جو اپنے نظریے ، لیڈر کے نہیں ہوسکتے وہ میرے آپ کے کیسے ہو سکتے ہیں ، وہ میرے نظریات، احساسات جذبات کی کیا ترجمانی کریں گے ۔ وہ میر ے لئے تبدیلیوں کے کون سے سورج تراشیں گے ، صاحبو ، مندری جی تو میری ایک نہیں سنتے ، مگر جاتے جاتے آپ کو خبردیتا جاوں کہ گزشتہ کئی روز سے ذاتی مصروفیات کے باعث آپ سے دوری میں گزرے ، ان دنوں اپنے گاؤں گڑھا احمد جسے کئی سالوں سے ترقیاتی منصوبوں میں نظر انداز کیا جاتا رہا میں اپنے مہربانوں کی محبت اور عوام دوستی کے ناطے دی گئی خصوصی گرانٹس سے اس گاؤں کی پسماندگی دور کرنے کی کوشش میں لگا ہو اہوں،میں اپنے مہربان جن میں چوہدری خادم ایم این اے62، مہر محمد فیاض ایم پی اے حلقہ پی پی 25 اور ضلعی چیئرمین راجہ قاسم علی خان کا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ جنہوں نے میرے گاؤں کی زبوں حالی ختم کرنے میں میرا ساتھ دیا ۔ امید ہے وہ دیگر علاقوں کے مسائل میں بھی دلچسپی لے کر ان مسائل کو فوری اور ترجیحی بنیادوں پر حل کریں گے۔ تاکہ مسائل کے سیاپوں کا کا خاتمہ ہو سکے اور ترقی کا سفر جاری رہے
Load/Hide Comments