زندگی منسوب ہے ۔۔۔سانسوں کے چلنے سے ۔۔۔دلوں کے دھڑکنے سے۔۔۔آہوں کے مچلنے اور۔۔۔خوابوں کے سنورنے سے ۔۔۔سو جوتھم جائے ۔۔۔وہ زندگی نہیں ۔
زندگی کیا ہے سوائے ایک مسافت کے۔ ایک ایسی مسافت جس کی منزل تومتعین ہے پر راہیں جدا جدا ،انجان و خفا خفا یوں کہ جانے کب، کہاں وہ یک دم آپ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیں اور آ پ کو ایک نئی راہ کے حوالے کرنے میں ایک پل کوبھی نہ ہچکچائیں ۔ ان راہوں کواس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کی زندگی کے وہ رنگ ڈھنگ ، وہ دوست ساتھی جو آپ کیلئے بہت اہم ہوتے ہیں اس کے ساتھ ہی پیچھے ۔۔ کہیں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں ۔کسی کو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان راہوں پر چل کر آپ نے زندگی کی سمجھا ہوتا ہے، خود کی پہچان کی ہوتی ہیاور کئی دوستوں ، کئی رشتوں کوپایا ہوتا ہے ۔۔ اور پھر وہ سب پھول لمحے اور خوشبو باتیں ۔۔۔انہی راہوں کے ساتھ ہی آپ کو الوداع کہہ دیتی ہیں ۔۔
اب آگے ۔۔نئی راہیں ، نئی زندگی اور نئی باتیں آپ کی منتظر ہیں ۔۔ ایک بارپھر ایک نیاامتحان آپ کے سامنے ہے پھر سے آزمائش کی کئی کسوٹیاں آپ کیلئے تیار آپ کی منتظر کھڑی ہیں ۔۔بہت سے نئے چیلنجز ان راہوں میں کھڑے آپ کوشکست دینے کو پوری طرح تیار کھڑے ہیں ۔۔ اب پھر سے ایک نئی راہ سے ملنے والے تمام پھولوں اور کانٹوں کو چن کر آپ نے اپنا دامن بھر ناہے۔۔اور آگے بڑھتے جانا ہے۔۔بڑھتے جانا ہے ۔۔
میں ۔۔۔ ایک بار پھر ایک دوراہے پر کھڑا ہوں ۔ میرے آگے ایک نئی دنیا ، کئی نئے شب وروز ، کچھ خوش رنگ بہاریں اور کچھ دلسوز خزائیں مجھے اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کوتیار کھڑی ہیں ۔۔یہ سب مسکرا مسکرا کرمجھے دیکھتیں ۔۔ مجھے اپنی اور بلاتی ہیں ، لیکن ۔۔کچھ ہے جو میرے قدم روکتاہے ۔۔۔
میں پلٹ کر دیکھوں تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلی راہوں کی یادیں ۔۔۔ بہت سی باتیں ۔۔کچھ سردیوں کی ٹھنڈی بارشیں اور کچھ گرمیوں کی طویل دوپہروں میں گہرے نیلے سمندر کی وہ اٹکھیلیاں ۔۔کچھ قہقہے تو کچھ آنسو ۔۔ میرا پلوپکڑے ، حسرت سے مجھے تک رہے ہیں ۔۔ان کی آنکھوں میں ،ان کے چہرے پر ایک بے یقینی اور ایک سوال ہے ۔۔ کیا تم چلے جاوگے؟؟
ان کے سوال کی بازگشت مجھے اپنے وجود میں بھی کہیں سنانی پڑتی ہے ۔۔کیا میں چلاجاوں گا؟؟ کیا واقعی میں چلاجاوں گاََ
ہاں ۔میں چلا جاوں گا ۔۔مجھے جانا ہی ہے ۔۔ ہراس چیز اور انسان سے دور جو کبھی میری ہم نوا ہوا کرتی تھی ۔۔۔ ان سے سے کہیں بہت دور،کسی نئی دنیا میں ۔۔
اور اب جب میں جانے کیلئے تیار کھڑا ہوں تو ان سب کی طرف سے مجھے ایک تحفہ بھی پیش کیا گیاہے ۔۔جب میں اس تحفے کی طرف دیکھتاہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بہت ہی خوبصورت گلدستہ ہے اس میں ہررنگ کے ، میری یادوں کے کئی پھول ہیں ۔۔ کچھ خوشبو دار لمحے بھی ۔۔ غور سے دیکھوں ۔۔تو کچھ کانٹے بھی ہیں ۔۔ آج تو وہ بھی مسکا رہے ہیں ، جیسے کہہ رہے ہوں۔۔
زندگی کیا ہے ؟؟۔۔۔اسے بھلاکوئی کب سمجھا ہے ۔
اور موت۔۔؟۔۔۔۔موت تو برحق ہے ۔۔۔برحق کیا ہوتا ہے ؟؟۔۔۔وہ جسے ٹالا نہ جاسکے ۔
ہرنفس کو یہ ذائقہ چکھنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو پھر یہ ڈر کیسا ہے ؟؟۔۔۔انسان غفلت میں کھویا ہے ۔
پیار ے پڑھنے والو۔۔
آج جب میں یہ الفاظ لکھ رہاہوں تو میرے سامنے لوگوں کے دلوں پرراج کرنیوالے نوابزادہ اقبال مہدی خان کی قبر ہے۔ یہ اس شخص کی قبر ہے جس کی جسامت ،بہادری ،دلیری اور اولوالعزمی کی دنیا دیوانی تھی ۔اہلخانہ ،رشتہ داروں اور یاروں کامددگار ۔۔ بے یارو مددگار سفر آخرت کوسدھارگیا ۔ زندگی پھر ’’نواب‘‘ کا خطاب پانے والے کو اس عدالت نے بلاوا بھیجا جسکے حکم کی حکم عدولی کوئی نبی ،ولی،یا بادشاہ تصوربھی نہیں کرسکتا۔۔ ایک سال بیت گیا کئی سال بیت جائیں گے مگر نوابزادہ اقبال مہدی کی محبت کا پھول کبھی مرجھا نہیں پائے گا۔
دوستو۔۔
دنیا کانواب اس دنیا سے رخصت ہوگیا اور یہ پیغا م دے گیا ہے کہ فطرت کا قانون اٹل ہے وہ کسی کی رعایت نہیں کرتا،انسان کی زندگی ،طرزمعاشرت اور سماجی واخلاقی قدریں اس کی زندگی تک محدود ہوکررہ جاتی ہیں،موت اٹل ہے مگربعض اموات ایسی ہوتی ہیں جونہ صرف مرنے والے کے خاندان ، عزیز و اقربا ، دوست احباب، بلکہ عام لوگوں کیلئے بھی قیامت صغری ثابت ہوتی ہیں ،نوابزادہ اقبال مہدی خان کی سیاسی، سماجی اور عوامی خدمات کے معترف ان کے چاہنے والے ہی نہیں بلکہ ان کے مخالفین بھی ہیں ۔۔ میں نوابزادہ اقبال مہدی کی وفات پرکیا لکھوں صرف اتنا کہوں گاکہ نوابزادہ اقبال مہدی کی وفات سے جہلم میں شرافت کی سیاست کا ایک جلتاچراغ بجھ گیا اورشرافت کی سیاست کا ایک اورباب بندہوگیا ان کی وفات سے پیدا ہونے والاخلاشاید صدیوں پرنہ ہوسکے۔۔
اللہ تعالی اقبال مہدی کااقبال بلند فرمائے۔آمین
Load/Hide Comments