جہلم کی ’’سیاہ ست‘‘ اور مندری کا ’’اونٹ ‘‘ تحریر: محمد امجد بٹ

رمضان المبارک میں سوچا تھا کہ ایک ماہ کیلئے گوشہ نشینی اختیار کرلی جائے۔ گیارہ ماہ غفلت و لاپرواہی میں گزارنے کے باوجود اللہ کریم اپنے قریب آنے کا موقع فراہم کرتا ہے ، سنا تھا کہ ماہ مقدس میں شیطان قید کر لیا جاتا ہے اور اسکی قید کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان یکسوئی سے اللہ کی بارگاہ میں ندامت کے آنسو بہا کر بخشش کا سامان پیدا کرسکتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شیطان قید ہے مگر شیطان کے چیلے اس ماہ مقدس میں بھی آزادانہ اپنی چالیں چلنے سے باز نہیں آتے۔گزشتہ روز اپنے جگری مندری سے اچانک ملاقات ہو گئی ۔مندری آج میرے سامنے بیٹھا من گھڑت پیشن گوئیوں کی بجائے تاریخ کا پروفیسر لگ رہا تھا اسکی گفتگو میں نہ وہ یقین تھا نہ دلائل جو وہ اپنی من گھڑت پیشن گوئیوں کیلئے استعمال کرتا تھا وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ یہ اقتدار ، یہ تخت وتاج بڑا ظالم ہوتا ہے سارے آپ کے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں آپ کو دلاسے دیتے ہیں اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے ہیں آپ کے حق میں بیانات دیتے ہیں آپ کے خلاف بولنے والے کے خلاف میان سے تلوار نکال لیتے ہیں لیکن اندر سے وہ آپ کے ساتھ نہیں ہوتے، ان کے دل کسی اور ہی خوشی میں غوطے کھا رہے ہوتے ہیں وہ اور ان کے رفقا خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ شاید اب میری باری آنے والی ہے مندری کچھ دیر خاموش رہا ۔ اور کہنے لگا تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کیلئے بھائی نے بھائی کو مار دیا، ماوں نے اپنے بچوں کو قتل کر دیا ، شہزادوں نے باپ کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا ، اندھیرے قید خانوں میں اپنے ہی خون کے رشتوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا ، اور جب کسی شہنشاہ نے قید سے اپنے ہی بیٹے سے درخواست کی کہ مجھے بچوں کی ایک جماعت دے دی جائے تو میں قید میں رہتے ہوئے بھی ان کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر سکتا ہوں ، تو شہزادے نے جس اقتدار کی مسند تک پہنچانے میں ، تعلیم وتربیت میں ، آداب شہنشاہی سکھانے میں والد نے بڑا کردار ادا کیا تھا اس کی اس درخواست پر ایک قہقہہ لگایا اور جواب دیا ابا حضور اس بڑھاپے اور قید میں بھی آپ کا شوق شہنشاہی نہیں گیا ۔آپ چاہتے ہیں کہ بچوں کی جماعت آپ کے سامنے درباریوں کی صورت بیٹھی ہو اور آپ بادشاہ کی مانند ان پر حکم چلائیں ، میں آپ کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دوں گا ۔مندری کی آج کی گفتگو سن کر میں نہ جانے کس سحر میں کھو گیا ، اور مندری یہ گفتگو مشہور فلم ’’مغل اعظم ‘‘کے اداکار پرتھوی راج کی طرح سنا رہا تھا اور مجھے ایسے محسو س ہو رہا تھا کہ مندری ابھی شہنشاہانہ انداز میں تالی بجائے گا اور رقاصائیں حاضر ہو جائیں گی درباریوں کی ایک جماعت کورنش بجا لاتی ہوئی حاضرہو جائے گی پھولوں کے تھال اٹھائے کنیزیں خوشبووں کے جھونکے بکھیرتی کمرے میں چاروں طر ف پھیل جائیں گی لیکن مندری کی اگلی ہی بات نے مجھے اس سحر سے نکال دیا ، مندری کہہ رہا تھا کہ اقتدار کے شوق او ر ہوس کی ایسی ہی فلم ہمارے جہلم میں چل رہی ہے اسکرپٹ لکھنے والے ، روڈ میپ بنانے والے ، اپنے چارٹ ٹیبل پر بچھائے حیران و پریشان ساری صورتحال دیکھ رہے ہیں کون کس کے خلاف ہے اور کس کے حق میں کون اپنی بات کا پاس رکھے گا اور کون اقتدار کیلئے ڈرامہ بازی کر رہا ہے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھانے والے ہمیشہ ایک ہی لیڈر کی قیادت میں جینے کے نعرے لگانے والے اب’’ میں میں‘‘ اور صرف میں کی گردان سے باہر نہیں آرہے ، چاہے وہ اپنے ہوں یا پرائے، میں نے مندری سے پوچھا مندری جی ہونے کیا جارہا ہے تو مندری نے کچھ دیر خامشی کے بعد کہا سارے اپنے آقاوں کی آشیر باد کیلئے ان سے یقین دہانیوں کیلئے اور اپنے حمایتیوں کیلئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں اپنے اپنے فارمولے پیش کر رہے ہیں اپنے اپنے روٹ پر طیارے اڑا رہے ہیں لیکن سب کے سب لینے کی بات کرتے ہیں کوئی دینے کی بات نہیں کرتا، بھاگ روڈ کرنے والے سارے گھوڑے یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار ان کا حق ہے اور ہر بار ان کی باری ہے لیکن میں اس بارے دیکھ رہا ہوں کہ اونٹ یہ فیصلہ کر ہی دے گا کہ اس نے کس کروٹ بیٹھنا ہے اب وہ زیادہ انتظار نہیں کرائے گا اگلے چند روز میں نئے کمالات ہوسکتے ہیں ۔
میں نے کمالات بارے پوچھا تو بولا۔۔۔۔۔۔۔ او بادشاہو!
دیکھتے نہیں کیا ہو رہا ہے کہیں چوہدری نذر گوندل پر تنقید ہو رہی ہے تو کہیں مہر فیاض کو سیاست سے آوٹ کرنے کا سوچا جا رہا ہے کہیں گرمالہ والوں کو فارغ کرنے کی تیاریاں ہیں تو کہیں قاسم علی خان کو ضلعی چیئرمینی سے ہٹانے کے خواب دیکھے جار ہے ہیں کہیں چوہدری عابد جوتانہ کو سیاسی آشیر باد دی جارہی ہے تو کہیں چوہدری لال حسین کی سیاست دفن کرنے کی تیاری، کہیں نوابزادہ مطلوب مہدی کو این اے 63سے فارغ کرنے کی ٹھانی جارہی ہے تو کہیں حافظ اعجازکو این اے 63میں لانے کی کاوشیں جاری ہیں ، کہیں پیر آزمائے جارہے ہیں تو کہیں پیروں پر کلہاڑیاں ماری جارہی ہیں کہیں 26-26کی گردان الاپی جارہی ہے تو کہیں راجہ ظفر اقبال نے نیندیں حرام کر رکھی ہیں کہیں چوہدری سعید اقبال کو ٹکٹ کی چوسنی دی جارہی ہے تو کہیں چوہدری مشتاق برگٹ کو اپنی مشتاقی کا یقین دلایا جارہا ہے ۔ کہیں اویس خالد منظر سے آوٹ ہیں تو کہیں راجہ احمد حسین شوکت کی انٹری ہے ۔کہیں ندیم خادم 62 سے فارغ ہے تو کہیں میاں علی عنصر کو خواب دکھائے جا رہے ہیں۔بس دیکھتے جاو کہ یہ اونٹ کب بیٹھ کر کس کس کابیڑا پار اور کس کس کا بیڑہ غرق کر ئے گا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں