احساس زیاں

احساس زیاں تحریر : عبدالغفور بٹ

صاحبو واقعہ کچھ یوں ہے کہ ڈسکہ صوبیدار بازار کے دکانداروں نے کچھ خواتین پر چوری کا الزام لگا کر تشدد کیا، اور ان کے چہروں سے نقاب ہٹا کر تھپڑ مارے، بعد ازاں ویڈیوز بناکر چھوڑ دیاگیا.

تفصیلات کے مطابق ڈسکہ شہر کے علاقہ صوبیدار بازار میں کپڑے چوری کرنے کے الزام میں تین خواتین کو دوکانداروں نے پکڑ لیا یہ خواتین خریداری کے لئے آئی تھیں مگر دوکاندار نے کپڑے چوری کر نے کا الزام لگا کر ساتھیوں کو بلا لیا تشدد بھی کیا اور عزت پر ہاتھ بھی ڈالنے کی کوشش کی۔ بازار کی انجمن تاجران کے صدر شکیل نامی شخص اوردوکانداروں نے اپنی عدالت لگاکر خواتین کی تذلیل کی چہروں پہ تھپڑ مارے اور ساتھ ویڈیو بنا کہ سوشل میڈیا پر چڑھا دی .

یہ سب کچھ بازار کے کچھ باریش دکانداروں کی موجودگی میں ہوا ان میں سے کئی دکاندار حاجی صاحب ہوں گے کئی کے ماتھے پر سجدے دے دے کر محرابوں کے نشان پڑ چکے ہوں گے مگر کسی میں اتنی بھی اخلاقی جرات نہ تھی کہ وہ اس ظلم کا ہاتھ روک کر ان عورتوں کی کہانی بھی سن لیتے چوری ایک ایسا عمل ہے کہ پیشہ ور چوروں کو چھوڑ کر جو بھی کرتا ہے وو مجبوری اور بے بسی کی انتہا پر پہنچ کر اور اپنی عزت نفس کو کچل کر یہ عمل کرتا ہے مگر کیا کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ اللہ پاک بے نیاز ہے وہ اس بات پر قادر ہے کہ حالات پھیر دے اور مجبور ہو کر کل کو ان کی بہو بیٹی اسی پوزیشن پر آ جاتی تب ان کے دل پر کیا گزرے گی .

ہمارے معاشرے کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو بھوک کی وجہ سے نہر میں پھینک کر خود کشی کر رہی ہیں بھوک سے مجبور باپ اپنے جگر گوشوں کے گلے میں برائے فروخت کی تختیاں لٹکا کر سر بازار آ جاتے ہیں ایسے میں اگر یہ عورتیں چوری کرتے ہوئے پکڑی بھی گئی تھیں تو کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ اس کے پیچھے کیا کرب چھپا ہو اہے اگر نہیں تو کل اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے با الفرض وہ پیشہ ور چور بھی تھیں تو ان کو اگر عزت سے بیٹھا کر سمجھایا جاتا تو یہ ممکن تھا کہ وہ اس راہ سے تائب ہو جاتیں کیوں کہ اچھے اخلاق سے دلوں کی حالت ہمارے رسول کریم ﷺنے بدل کے رکھ دی تھی۔ تو آج ہم آپﷺکی سنت پر کیوں عمل نہیں کر سکتے۔

خلیفہ دوم حضرت عمرؓ کے زمانے میں قحط پڑ گیا تو کوئی شخص چوری کے الزام میں پکڑا گیا اور آپ کے سامنے اس شخص نے اعتراف کیا کہ اس نے بھوک سے مجبور ہو کر چوری کی تھی حضرت عمرؓ آبدیدہ ہو گئے اور انصاف کے معاملے میں سخت ترین خلیفہ نے چوری کی سزا قحط کے خاتمے تک موقوف کر دی کیا ہم آج ان روشن مثالوں پر عمل نہیں کر سکتے آج ایک لمحے میں ہم اپنی عدالتیں خود لگا کر انصاف کا قتل کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہم یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ کوئی معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے ظلم پر نہیں آج ہمارے رویوں میں حد درجے کی انتہا پسندی سے معاشرے میں انتشار اور عدم توازن پیدا ہو چکا ہے ملکی قانون کی موجودگی میں ہم گلی گلی عدالتیں لگا کر دنیا میں جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم انارکی کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں آج کسی پر ظلم کر کے اس کی ویڈیو عام کرتے ہوئے پوری دنیا میں اس کی عزت کا جنازہ گھمایا جاتا ہے اور عوامی سطح پر ہم ظالم کا ہاتھ روکنے کی بجائے ظلم کا حصہ بن جاتے ہیں ، یہ بات کسی مہذب معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں بلکہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی اخلاقی اور معاشرتی اقدار کا احساس زیاں بھی نہیں اور یہی دراصل ہماری ناکامی کی بنیادی وجہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں