نام نہاد صحافی تحریر:عبد الغفور بٹ

صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے جوعام لوگوں کی خواص تک آواز پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے ،لہذاصحافت ایک ایسا مقدس پیشہ ہے جو عوام اور حکمرانوں کے درمیان ایک رابطے اور پل کا کام کرتا ہے ، صحافت ظلم، بدعنوانی اور دیگر معاشرتی برائیوں کو نہ صرف بے نقاب کرتی ہے بلکہ ان کا حل ڈھونڈنے میں مددگار ہوتی ہے، صحافی سے ہمیشہ یہی توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ذات سے بالا تر ہو کر معاشرے کی فلاح و بہبودکے لئے کام کرے ،کسی دباؤ ،لالچ اور دھونس میں آئے بغیراعلیٰ مقاصد کے لئے ہمہ وقت کام کرے ،ایک دور تھا جب صحافی کسی معاشرتی برائی کو سامنے لاتے تھے تو حکومتی ایوانوں میں ترتھلی مچ جاتی تھی، کسی سرکاری اہلکار کی رشوت لینے کی خبر لگتی تو پورا محکمہ اس اہلکار کی گوشمالی کے لئے اس کے پیچھے پڑ جاتا تھا ،کسی مظلوم پر ہونے والے ظلم کو جب کوئی صحافی رپورٹ کرتا تھا تو عدالتیں انصاف کے لئے جت جاتی تھیں گویا صحافت اور صحافی دونوں کا ایک مقام تھا لیکن پھر وہ وقت آ گیا کہ دوسرے شعبوں کی طرح صحافت کا رنگ بھی پھیکا پڑ گیا، زرد صحافت کی اصطلاح زبان زد عام ہو گئی ، کئی صحافی۔ لفافہ صحافی کے نام سے مشہور ہوئے، انتہائی پستی کی اس سطح تک پہنچنے کے لئے ان صحافیوں نے بہت زور آزمائی کی جنہیں عزت سے زیادہ پیسہ عزیز تھا اور آج کل تو صحافت ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی لونڈی بن چکی ہے ،چند ٹکوں کے عوض سیاستدانوں اور سرکاری افسران کے حق میں کالم اور مضامین لکھنا، شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا، غریب اور بے کس گھرانوں کی لڑکیوں کی تصاویر بنا کر بلیک میل کرنا اور پیسے نہ دینے پر تصاویر کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر کے ہنستے بستے گھرانوں کو جہنم زار بنا دینا ان لوگوں کا وطیرہ ہے،آج کل نام نہادصحافیوں نے نیا طریقہ واردات اپنا لیا ہے ، جو ایک کیمرہ اٹھاتے ہیں گاڑی رینٹ پر لے کر پریس کی جعلی نمبر پلیٹ لگاتے ہیں یا کسی میڈیا ہاؤس کا مونوگرام لگا کے بڑے تاجروں ،شاپنگ سنٹروں اور دیگر خوردونوش کی دکانوں میں گھس جاتے ہیں، اپنے ایک سوٹڈ بوٹڈ ساتھی کا تعارف بطور افسر محکمہ صحت کرا کے چھاپہ مارنے کا انداز اختیار کرتے ہیں اور غیر معیاری اشیا کی خریدوفروخت کا الزام لگا کہ پیسہ بٹورتے ہیں پھر یہ جا اوروہ جا ،دکاندار بیچارے اپنی عزت اور کاروبار بچانے کی خاطر خون کے گھونٹ پی کر چپ ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ روز جہلم میں ایسے گروہ کے خلاف تھانہ صدر جہلم میں ایف آئی آر کا اندراج ہوا ہے لیکن ایسے جعلی صحافیوں کا کاروبار خوب چمک رہا ہے اور یہ جدید بھتہ خور گروہ جگہ جگہ دندناتے پھر رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں، تاہم کچھ جگہوں پرایسے نام نہادصحافیوں کے خلاف اگر ایف ائی آر ہو جاتی ہے جس طرح گزشتہ روز جہلم میں ایسے گروہ کے خلاف تھانہ صدر جہلم میں ایف آئی آر کا اندراج ہوا ہے تو ایکشن نہیں ہوتا شائد پولیس کی اپنی مجبوریاں ہوں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے ناسوروں کا مستقل علاج کیا جائے اور ان ننگ انسانیت لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تا کہ کھرے اور کھوٹے صحافی میں تمیز کی جا سکے اور معاشرے کے تمام طبقات کا صحافی اور صحافت پر اعتماد بحال ہو، اس سلسلے میں صحافتی برادری کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے درمیان موجودایسی کالی بھیڑوں کو تلاش کریں اور انکے کے خلاف تادیبی کاروائی کریں،بلکہ پریس کارڈ جاری کرتے وقت صحافی کی تعلیم ،تجربے اور اخلاقی کردار کو ضرور جانچیں ورنہ صحافیوں کی رہی سہی عزت کو یہ دو نمبر لوگ دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں