2008سے 2017تک تحریر: احسن وحید

سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف پانامہ فیصلہ کے بعد دوبارہ عوامی عدالت میں جانے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کر رہے تھے کہ عوام اس عدالتی فیصلہ کو کس نظر اور تناظر سے دیکھتے ہیں اور کارکنوں کے نظریات میں کس حد تک تبدیلی آئی اس بات کا جائزہ لینے کے لئے مشاورتی اجلاس بھی ہوئے اور میاں محمد نواز شریف نے بذریعہ جی ٹی روڈ اپنے محل جانے کا ارادہ کیا تو میاں محمد نواز شریف کے قریبی ساتھیوں اور سیکورٹی اداروں نے سیکورٹی کلیرنس نہ ہونے کی انہیں جی ٹی روڈ کی بجائے موٹر وے سے لاہور جانے کا مشورہ دیا اور انہوں نے جی ٹی روڈ سے لاہور جانے کاارادہ ملتوی کر کے بذریعہ موٹر وے لاہور جانے کا فیصلہ کیا لیکن مری سے اسلام آباد آتے ہوئے بہارہ کہو میں ان کے شاندار استقبال کے بعد انہوں نے بذریعہ موٹر وے لاہور جانے کے فیصلے پرمشاورت شروع کی اور آخر کار دوبارہ بدھ کو بذریعہ جی ٹی روڈ جانے کا فیصلہ کیا اوراپنے پرانے ساتھیوں سے رابطے کرنا شروع کیے اور آخر کار ضلع جہلم میں اپنے پرانے ساتھی بزرگ سیاستدان راجہ محمد افضل خان سے ٹیلی فونک گفتگو کی اور انہیں جہلم میں استقبال کی تیاریاں کرنے کا کہا اور قوی امکان ہے کہ وہ جہلم میں شاہد راجہ محمد افضل خان کے پاس رات کا قیام بھی کریں ۔ اس خبر کے نظر سے گزرنے پر راقم نے تاریخ کے اوراک پر نظر ڈالی تو دیکھا کہ میاں محمد نواز شریف آخری بار اپنے ساتھیوں کو ملنے بذریعہ جی ٹی روڈ 2008 میں آئے جب وہ وزیر اعظم نہیں تھے لیکن 2013 کے ا لیکشن میں وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہونے کے بعد انہوں نے کبھی اپنے ان ساتھیوں کو ملنے کی زحمت نہ کی اور آج پھر 2017میں جب وہ دوبارہ وزیر اعظم کے منصب سے ہٹائے گے تو انہوں نے بذریعہ جی ٹی روڈ اپنے ساتھیوں سے ملنے اور انہیں کارکنوں کو جمع کر کے اپنے استقبال کا کہا ۔
ضلع جہلم جو کہ مسلم لیگ ن کا قلعہ ثابت ہوا اور ہر بار جب بھی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اقتدار سنبھالا انہیں دو قومی اسمبلی اور چار صوبائی اسمبلی کی سیٹیں جیت کر دیں لیکن افسوس کے ہر بار ضلع جہلم سے عوامی طاقت سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی کونہ کسی وزارت سے نوازا گیا اور نہ ہی اس ضلع میں کسی بڑے میگا پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا سوائے پنجاب یونیورسٹی اور کرپشن اور بھاری کمیشن کی بنیاد پر کھڑا ہوانے والا پل اس کے علاوہ اگر حلقہ پی پی چوبیس کے مسائل پر ایک نظر ڈالوں تو میاں محمد نواز شریف کے مشکل وقتوں کے ساتھی اور بہترین دوست راجہ خالد خان مرحوم کے حلقہ کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ ان کی وفات کے بعد ہی شروع ہو گیا تھا اور سوہاوہ حلقہ پی پی چوبیس کی عوام آج بھی سوئی گیس جس کے گیس سلینڈروں پر افتتاح ہوئے اس کی حقیقی معنوں میں فراہمی پانی جیسی بنیادی سہولت کی دستیابی ، نوجوانون کے لئے کھیلوں کا گراؤنڈ بچوں کے لئے پبلک پارک وہ پارک نہیں جو صرف کاغذوں میں ہوں ، تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سوہاوہ میں ڈاکٹروں کی کمی کو پورا کرنے مشینری کی دستیابی صرف ٹائلوں اور صفائی سے ہسپتال بہتر نہیں ہوتے ٹائلیں لگنے کے باوجود ہسپتال بارش ہوتے ہی گٹر کے پانی سے بھر جاتا ہے ۔ سروس روڈ صرف ایک طرف گھر سے آفس تک سروس روڈ نہیں بلکہ دونوں اطراف عوام کو سہولت دینے والی سروس روڈ ۔ اسٹریٹ لائٹس وہ اسٹریٹ لائٹس نہیں جو کاغذوں میں تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال سوہاوہ سے تحصیل کمپلیکس سوہاوہ تک لگی ہوئی ہیں بلکہ وہ اسٹریٹ لائٹس جن کی روشنی نظر آئے ۔گرلز ڈگری کالج میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنا اور ٹھیکدارسے ادھورا کام مکمل کروانا جس کے اس نے کروڑوں روپے منظور کروا لیے ۔ تھانے میں نفری کی کمی کو پورا کروانا ، گشت کے لئے موٹر سائیکل اور گاڑی مہیاکروانی ، گورنمنٹ بوائز کالج سوہاوہ میں اساتذہ کی کمی کے دیرینہ مطالبہ کو پورا کر کے نوجوانون کو دوسرے شہروں کے کالجز میں پڑھنے پر مجبور ہونے سے بچانا ، محکمہ جنگلات ، محکمہ زراعت ، محکمہ لائف اسٹاف کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو آپ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائینگی ان میں سے سب سے بڑا مطالبہ سوہاوہ کی عوام کا سوئی گیس کی فراہمی کا ہے اور اوپر بیان کی گئی محرومیوں کے نام پر عوام سے اس بار ووٹ لی گئی لیکن بدلے میں چند سڑکیں اور گلیاں پکی کروا کر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے کہ ہمارے دور میں اربوں روپے کے کام ہوئے کام تو ہوئے مان بھی لیتے ہیں لیکن کیا آپ کی اولین ترجیح سڑکیں اور گلیاں پکی کروانا ہے کیا آپ نے ان محرومیوں کے نام پر ووٹ نہیں لیے آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے اور اس بات کو سمجھنے کے لئے پارٹی وابستگی نہیں غیر جانبداری چاہے ہوتی ہے میاں محمد نوازشریف کے کروڑوں چاہنے والے ہیں تب ہی وہ اقتدار میں آئے تھے لیکن بعض دفع کروڑوں چاہنے والوں میں سے کسی ایک کی بھی سن لی جائے تو حالات بدلنے میں دیر نہیں لگتی ۔آخر میں صرف اتنا کہوں گاکہ سوئی گیس اگر وفاقی حکومت نے منظور کرنی ہوتی ہے تو یہ جو ہوڈنگ بورڈ پر بجلی کے وولٹیج کی کمی کو پورا کرنے کے لئے فنڈ منظور ہوئے ہیں وہ پنجاب حکومت نے کب سے جاری کرنا شروع کر دیے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں