آزادی کی حقیقی منزل ، تحریر : غضنفر علی اکرام ایم اے۔ بی ا یڈ
سنو اے ساکنان بزم گیتی
ندا کیا آ رہی ہے آسماں سے
آزادی کا ایک لمحہ ہے بہتر
غلامی کی حیات جاوداں سے
ہم ہر سال یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں اور کیوں نہ منائیں کہ یہ وہ دن ہے جس نے ہمیں ہماری ہستی کی شناخت دی ہمیں اپنا وطن دیا اپنی باعزت چھت روزگار جینے کی امنگ اور حوصلہ عطا کیا جس کی وجہ سے آج ہم دنیا میں سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو? ہیں من کی گود کے بعد اگر کوئی چیز ہے جو انسان کو طمانیت اور سکوں دے سکتی ہے وو وطن کی مٹی ہوتی ہے ہمارے پیارے رسول (ص ) نے فرمایا کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے ہجرت مدینہ کے وقت مکہ کی سرحد پر پہنچ کر بڑی حسرت سے کہا کہ اے مکہ تو مجھ میں ہے مگر میرا نہیں اور مدینہ مجھ میں نہیں مگر میرا ہو گیا اے مکہ اگر تیرے بسی مجھ پی زمین تنگ نہ کر دیتے تو میں کبھی یہاں سے نہ نکلتا آج جب ہمارے پاس اپنا وطن ہے تو یہ کتنا بڑا اللّ? کا احسان ہے اور قائد ا عظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں کی شبانہ روز محنت کا سمر ہے کہ آج ہم آزادی کی نعمت سے سرفراز ہیں آزادی کی صحیح قدر وہی قومیں کر سکتی ہیں جو غلام کے قعر مذلت میں دھنسی ہوء ہیں آزادی کے تحفے کو حاصل کرنے کے لئے آج کشمیر،فلسطین بوسنیا و چیچنیا اور نہ جانے کہاں کہاں سر بکف ہیں مگر آزادی ان سے کوسوں دور ہے اور ایک ہم ہیں کہ آزادی حاصل کر کے بھی ذہنی غلامی کی زنجیریں نہیں توڑ سکے جن آقاؤں سے جسمانی آزادی حاصل کی انہی کی چوکھٹ پر اپنے فیصلوں کے لئے سجدہ ریز ہو رہے ہیں.
بقول میر تقی میر
میر بھی کیا سادہ ہیں ،بیمار ہو? جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
یارو آزادی حاصل کر لینا بڑی بات ہے مگر آزادی کو قائم رکھنا اس سے بھی بڑی بات ہے محض یوم آزادی کے نام پر چند ملی نغمے گا دینے اور تقریریں کر دینے سے تو آزادی برقرار نہیں رکھی جا سکتی بلکہ پیہم عمل اور محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے یہ سوچنا ضروری نہیں کے صرف میرے کام کرنے سے کیا فرق پڑے گا بلکہ یو سوچ پیدا کرنا ضروری ہے کہ میرے ہی کام سے فرق پڑے گا آج ہر شخص کو اپنے حصے کا کام کرنا ہے چاہے کوئی بھی شعبہ ہو ہم نے اس میں سبقت لے جانے کے لئے قدم آگے بڑھانے ہیں آزادی ہمیشہ اپنا خراج مانگتی ہے اور اس رہ میں ہر لحظہ نت نئے چیلنج درپیش ہوتے ہیں جن سے نبرد آزما ہونے کے لئے اہنی حوصلے اور جرات کی ضرورت ہوتی ہے الحمدولللہ اب تک قوم نے بعض شعبوں میں قابل قدر کارنامے سرانجام دے ہیں مگر ابھی معاشی کامیابیاں سمیٹنے کے لئے محنت شاقہ کی ضرورت ہے ٹیلنٹ کی کمی نہیں صرف ٹیلنٹ کو موقع دینے کی ضرورت ہے اور گدڑیوں سے لعل تلاش کرنے کی ضرورت ہے اجتماعی دانش کو برو? کر لانا از بس ضروری ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی ذات کی نفی کر کے ملکی مفاد کو آگے بڑھانا ہی ایک ایسا عمل ہے جو انے والی نسلوں کو آزادی کے حقیقی ثمرات منتقل کرنے کا با عث بنے گا اور یہی آزادی کی حقیقی منزل ہو گی۔