برما میں بر بریت تحریر: محمد امجد بٹ

پیارے پڑھنے والو !
بہت دنوں بعد کچھ لکھنے کا موقع ملا ہے بہت سے موضوعات سامنے تھے ۔ مگر محبت کرنے وا لوں نے برما کے مسلمانوں پر روا ظلم کی داستان کو اجاگر کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ شاید ہماری بات کسی کے دل میں اتر کر اثر پیدا کرے۔میں انکے کے مسلمانی اور ایمانی جذبے کی قدر کرتا ہوں۔کیونکہ ہمارا دین بھی یہی درس دیتا ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور اگر کسی بھائی کو کوئی تکلیف پہنچے تو دوسرے کو بھی اس کا احساس ہونا چاہیئے۔بے شک اسلام اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین اورانسانیت کی فلاح و بہبود کاواحد راستہ ہے جس پر چل کرہم دنیا وآخرت کی سرخر وئی کی منازل حاصل کر سکتے ہیں۔ہمیں تاریخ اسلام میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جب انتہائی جاہل گنوار اوروحشی قوموں نے دامنِ اسلام میں پناہ لی تو قدرت نے نہ صرف دنیا جہاں کے خزانے انکے قدموں پہ نچھاورکر دیے بلکہ انہیں دنیا میں ہی جنت کے پروانے جاری کر دیے لیکن یہ مقام حاصل کرنے کے لئے انہیں بے پناہ مصائب و آلام کا سامنا بھی کرنا پڑاکیونکہ دنیا میں ازل سے ہی جاری خیرو شر کی جنگ میں شیطانی قوتوں نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مکروہ اور بھیانک سازشوں کے ذریعے اس مبارک مذہب کے پھیلاؤکو روکنے کی کوششیں جاری رکھیں۔انکا قتلِ عام کیا گیا،نسل کشی کی گئی،اللہ کی لاریب کتاب کی توہین کی گئی ،نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کی توہین تک کی ناپاک جسارتیں کی گئیں۔ان تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود اللہ اور اسکے رسولﷺ کی محبت دلوں سے ختم نہ کر سکے۔الحمدللہ آج اسلام دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والامذہب بن چکا ہے یہی وجہ جس نے کفر کے علمبرداروں کی نیندیں اچاٹ کر دی ہیں اور وہ بوکھلا کرآئے روز مسلمانوں پر ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہے ہیں۔برما کے مسلمانوں کا قتل عام بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔برما(میانمار)جنوب مشرقی ایشاء کا سب سے بڑا ملک ہے جسکا رقبہ 676577مربع کلو میڑاور آبادی 4کروڑ80لاکھ کے قریب ہے یہاں پر ۸۰فیصدبدھ مت کے پیروکار اور ۲۰ فیصد دوسرے مذاہب کے لوگ آباد ہیں اور ان میں زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے۔ برما کی سرخ رنگت مٹی سونا اگلتی ہے اسکے وسیع جنگلات صندل اور ساگوان جیسی قیمتی لکڑی سے بھرے پڑے ہیں۔دنیا کا اعلیٰ نسل کا پام آئل اور چاول اسی کی پیداوار ہیں برما ۱۹۶۲ کے بعد سے ہمیشہ ہی فوجی حکومتوں کے زیرِ عتاب رہا جنہوں نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ ڈھائے کہ الاماں!جب مساجد اور قرآن و حدیث کی کتب کو نذر آتش کیا گیا،بسوں سے اتار کر مسلمانوں کو زندہ جلایا گیاتو مسلمانوں میں شدید اشتعال پھیل گیااور انہوں نے جب اس ظلم کے خلاف حکومت سے احتجاج کیاتو گویا اس پر تو قیامت ہی برپا کر دی گئی پھر برمی فوج اور بدھوں نے بلا امتیاز مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کے رکھ دیاوہ پاگل کتوں کی طرح جدھر منہ کرتے خون کی ہولی کھیلتے۔بستیوں کی بستیاں جلا کر راکھ کاڈھیر بنا دی گئیں۔نوجوانوں کو چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے بدھ دہشت گردوں نے معصوم عورتوں اور بچوں کو بھی تہہ تیغ کرڈالا سینکڑوں ابھی تک لاپتہ ہیں اور یہ سلسلہ ہنود جاری ہے برمی مسلمانوں پر کڑا وقت ہے اور57سے زائد مسلم ممالک کے عیاش حکمران یخ بستہ کمروں میں بیٹھے نہ صرف برما بلکہ امت مسلمہ پر ڈھائے جانے والے مظالم،عوتوں کی عصمت دری،بچوں پر وحشیانہ تشددمساجد و قرآن کی گستاخیاں۔مقامِ نبوت اور شانِ رسالتﷺ کی توہین آمیزیاں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر اور کانوں سے سن کر بہرے ،اندھے اور گونگے ہو گئے ہیں۔کہاں سے عہد رفتہ کے وہ مسلمان لاؤں جو کسی بیٹی کے سر سے اتارے کئے دوپٹہ کی خاطر ظالم کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیتے تھے۔کہاں سے لائیں اب 313 جو اللہ اور اسکے رسولﷺ کی خاطر ہزاروں کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہو گئے اور نہ صرف دشمن کا سامنا کیا بلکہ اللہ نے انہیں فتح سے ہمکنار کیا۔مسلمان تو مسلمان کا بھائی ہے اور امت مسلمہ جسدِ واحد کی طرح ہے اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہوتا ہے تو پورا جسم وہ دردمحسوس کرتا ہے۔مگر یہاں تو مسلمانوں میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔برما کے مسلمان ہجرت کر کے قریبی مسلمان ملک بنگلہ دیش کا رخ کرتے ہیں مگر اس کے حکمران غیر مسلم آقاؤں کی خوشنودی نہیں کھونا چاہتے اور ان بے یارو مددگاروں کو جنکو ہم بھائی بھائی کہتے ہیں پناہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔یہاں مسلمانوں پر ایک برما نہیں بلکہ پوری دنیا ’’برہم ‘‘ ہے۔دنیا بھر میں ہم ظلم کا شکار ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کہ ہم ہی دہشت گرد بھی ہیں۔ کیا امریکہ اور اسکی دسترخوانی حکومتوں کوبرما کی بدترین ڈکٹیٹر شپ اوراندھیر نگری نظر نہی آ رہی۔کتے کی دم کی طرح سیدھی نہ ہونے والی اقوامِ متحدہ اور مسلمانوں کے حقوق کی علمبردار او آئی سی میں بیٹھنے والوں کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں کیا۔تعصب کی عینک لگا کر ہماری تباہی و بربادی کانظارہ دیکھنے والو تمھارے پاس ہمارے سوالوں کا کوئی جواب نہیں اور جواب ہو بھی کیسے کہ یہ جواب تو ہمیں چودہ سو سال پہلے ہمارے دین نے دے دیا تھا کہ’’ تمام کفر ایک قوم ہے‘‘ بلکہ یہاں تک کہ ’’ یہود و نصاریٰ تمھارے دوست نہیں ہو سکتے۔ہم احتجاج کرریں بھی تو کس سے ؟؟؟؟؟منصفی چاہیں بھی تو کس سے؟؟؟؟زنجیر عدل ہلائیں تو کس دہلیز پہ؟؟؟؟؟ سراپا احتجاج بنیں تو کس کے سامنے؟؟؟ہم نے جس بارگاہ میں ملتجی ہونا ہے اس بارگاہ میں جانے کے لئے ہمارے پاس ہے کیا؟؟؟؟ ہم اس بارگاہ لم یزل میں یہ کہیں گے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی ہو کر اپنے ہی بھائیوں کے گلے کاٹتے رہے؟؟؟ ہم مسلمان ہو کر مسلمانوں پر ہی ظلم روا رکھے رہے؟؟؟؟ ہم ایک خدا کی مخلوق ہونے کے باوجود مسجدوں،امام بارگاہوں،درس گاہوں،عبادت گاہوں کو نشانے بناتے رہے؟؟؟؟؟ ہم تیرے ہوتے ہوئے بھی غیروں کے بنے رہے ۔۔ دنیا جن کی فتوحات کی گواہی دیتی تھی آج انکی کسمپرسی کی زندگی قابل رحم ہے۔ ہمارے 34 ملکوں کے اتحاد کی صورت میں قائم ہونے والی ’’ مسلم سپاہ ‘‘ کہاں ہے ؟ ۔ بلکتے بچے ، کراہتے زخمی ، تڑپتی مائیں ، بھوک و پیاس سے چور برمی مسلمان ایک ارب 27 کروڑ مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجوڑ رہے ہیں۔ 57 اسلامی ممالک مٹی کی مورتیاں بنے بدھ متوں کی سفاکی اور شقاوت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں کسی کو خیال نہیں ٓ رہا کہ خاک و خون میں نہانے والوں سے انکا رشتہ کیا ہے۔ کسی نے بدھ متوں کی بربریت کی کھل کر مذمت نہیں کیمسلمان برما کا ہو یا فلسطین کا،کشمیر کا ہو یا پاکستان کا،شام کا ہو یا عراق کا، ایران کا ہو یا افغانستان کا ، عرب کا ہو یا عجم کا ،افریقہ کا ہو یا امریکہ کا ،وہ کالا ہو یا گورا ہو،امیر ہو یا غریب ہو ۔مسلمان جب تک اپنے مرکز کے طرف نہیں لوٹے گا ذلیل و رسوائی اسکا مقدر ٹھہرے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔ قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی۔
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی

اپنا تبصرہ بھیجیں