وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے اور پھروعدہ کسی سیاسی نے کیا ہو،اُس وعدے کی عُمر کافی لمبی ہوتی ہے.
اگر وعدہ انتخابات کے موسم میں ہو تو کم سے کم پانچ سال تو وعدہ وفا ہوتے ہوتے لگ جاتے ہیں،پانچ سال بعد بھی اگر وعدہ وفا نہ ہو سکے تو اُس وعدے کو لارے کا نام بھی دیا جا سکتا ہے،لیکن ہماری بھولی عوام پھر پانچ سال کے لارے میں لگ جاتی ہے،ایسا ہی ایک لارا 2008سے آج تک ارسل ٹاؤن کے مکین سنتے چلے آ رہے ہیں،
قارئین! ارسل ٹاؤن ،ضلع جہلم کی سب سے بڑی یونین کونسل کوٹلہ فقیر کا حصّہ ہے،یونین کونسل کوٹلہ فقیر سے 2013کے جنرل انتخابات میں پی ٹی آئی کے بانی ورکروں نے کافی محنت کی اوریونین کونسل کوٹلہ فقیر میں اپنا ووٹ بنک بنایا،جس سے انتخابات میں کارکردگی کافی بہتر رہی ،اور بعداز جنرل انتخابات ووٹ بنک دیکھتے ہوئے کافی سارے لوکل پھنے خان عمران خان کے سپاہی بن گئے،مرحوم ایم این اے نوابزادہ اقبال مہدی کی وفات کے بعدہونے والے ضمنی انتخابات میں بھی پی ٹی آئی دو دھروں میں تقسیم تھی لیکن مقابلہ پھر بھی اچھا کیا،توبات ہو رہی تھی ارسل ٹاؤن کی ، واحد پولنگ تھا جہاں سے ہر دور میں ن لیگ ہی جیتی،سابقہ تمام انتخابات میں پورے ارسل ٹاؤن میں پی ٹی آئی کی میٹنگ کروانے والا کوئی نظر نہیں آتاتھا،
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے،کوئی مانے یا نہ مانے یہ حق ہے کہ مشرف دور میں پورے ضلع جہلم میں ترقیاتی کاموں کی ایک نئی مثال قائم ہوئی ،لیکن ارسل ٹاؤن کی عوام اُس دور میں بھی محرومیوں کا شکار رہی،ارسل ٹاؤن میں رہائش پذیر لوگوں کے گھر کوئی مہمان بھی نہیں آتا تھا ،اور روڈکی حالت دیکھ کر بیچارے رہائشی کسی مہمان کو بلاتے بھی نہ تھے اور سوچتے تھے کہ آنے والا مہما ن روڈ کو دیکھ کر کیا سوچے گا ،2008کا الیکشن گزرا ،مشرف دور ختم ہوا،حلقہ PP26سے گرمالہ خاندان کے چشم وچراغ چوہدری ندیم خادم ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تو ارسل ٹاؤن والوں کی قسمت بدل گئی ،علاقہ مکینوں نے سیاسی ڈیرہ گرمالہ خاندان یعنی گُجرہاؤس کا رُخ کیا، جہاں چوہدری راشد گُجرنے اُن سے روڈ بنوانے کا وعدہ کیا اور 37دن بعد روڈکا کام شروع ہو گیا،روڈ مکمل ہونے کے بعد علاقہ مکینوں نے سکھ کا سانس لیا ،
2008کے انتخابات کے بعد چوہدری ندیم خادم کی طرف سے یونین کونسل کوٹلہ فقیر کو سب سے زیادہ فنڈ ملے ،اور کام بھی ہوئے ،لیکن 2013کے انتخابات کے بعد چوہدری ندیم خادم کے چچا چوہدری لال حسین نے ممبر صوبائی اسمبلی بن کرنہ صرف ندیم خادم بلکہ مشرف دور کا ریکارڈ توڑ دیا،چوہدری لال حسین کے ایم پی اے بننے کے بعد نالہ گہان کا پُل ،بگا سے مونن64فٹ لنک روڈجیسے میگاپروجیکٹ بھی یونین کونسل کوٹلہ فقیر کے حصّہ میں آئے،چوہدری لال حسین نے تو اپنا حق ادا کر دیا لیکن ایم این اے،محترم عزت مآب، جناب نواب ابن نواب، قبلہ مطلوب مہدی بن اقبال مہدی بن افضال مہدی سکنہ داراپور نے ارسل ٹاؤن کی عوام کے لئے کیا کیا،
کچھ دن پہلے تحصیل پنڈدادنخان میں مقامی صحافی اسد بخاری نے نجی سکول میں ایک تقریب میں ایم این اے مطلوب مہدی اور ضلعی چیئرمین راجہ قاسم خان کے سامنے علاقہ کے مسائل پر روشنی ڈالی، جس میں ایم این اے صاحب سے پوچھا کہ جناب تحصیل پنڈدادنخان کی خستہ حالی کا ذمہ دار کون ہیں آپ یا عوام؟،،،،اگر عوام ہے تو آئندہ ووٹ دیتے وقت اس عوام کوسوچنا چاہیے اور اگر آپ ہیں تو جواب دیں، لیکن علا قہ مکینوں کو جناب نواب صاحب کی طرف سے کوئی جواب نہ ملا، شاید اسد بخاری کے الفاظ بہت سخت اور حقائق بر مبنی تھے، لیکن میں اْسد بخاری سمیت باقی حلقہ کی عوام کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جناب تحصیل جہلم میں بھی ایم این اے صاحب نے کبھی کسی کام میں حصّہ نہیں ڈالا، نہ کبھی کسی کے گھرغمی خوشی پر آئے اور نہ ہی کبھی کسی کو اپنے ڈیرے پرملے اور فون تو وہ نواب ہیں کیسے سنے گے کسی کا؟،،،،
ایک دفعہ ایک شخص نے بڑی دلچسپ کہانی سنائی،کہتا ہے میں صبح دس(10)بجے جنجوعہ ہاؤس کسی ذاتی کام سے گیا،کافی دیر اکیلا بیٹھا رہا ،کسی نے چائے پانی پوچھناتو دور کی بات یہ بھی نہ پوچھا کہ آپ کون ہو،کہتا ہے کہ میں اسی سوچ میں گُم تھا کہ اچانک ایک شخص کمرے سے نکلا،میں نے اُس سے پوچھا نواب صاحب سے ملنا ہے تو جواب ملا ،رات اسلام آباد سے کافی لیٹ آنے کی وجہ سے سو رہے ہیں ،آپ بارہ(12) کے بعد آنا،اُس شخص کی زبانی کہ میں واپس آگیا،ابھی بارہ بجنے میں کچھ ٹائم بچتا تھا کہ میں پھر ذاتی کام کے سلسلے میں جنجوعہ ہاؤس جا پہنچا،پھر وہی شخص میرے سامنے آیا ،میں نے دوبارہ وہی الفاظ واپس دھرائے،جواب ملا نواب صاحب داراپور چلے گئے ہیں ،آپ شام کو آنا،اس بار وہ شخص مایوس ہو گیا اور شام کے انتظار میں پھر جنجوعہ ہاؤس کے گیٹ سے باہر نکل آیا اور سوچنے لگا کہ کیا کرو کوئی اوردر پکڑلوںیا انتظار جاری رکھو،لیکن اس سوچ میں شام آگئی اور وہ شخص دوبارہ جنجوعہ ہاؤس چلا گیا،وہاں ہر طرف سناتا چھایا ہوا تھا لیکن اُس شخص نے بتایا کہ ایک چیز ایسی تھی جو میں نے ہر چکر میں وہاں پائی ،وہ تھی چارپائی،کم سے کم میں وہاں جا کر بیٹھ تو جاتا تھا ، اگر وہ بھی نہ ہوتی تو کھڑے ہو کر میرے لئے انتظار کرنا نا ممکن تھا،خیر بات کو آگے چلاتے ہوئے اُس نے اپنی گفتگو میں مزید بتایا کہ میں حیران اُس وقت ہوا کہ جب وہاں موجود ایک نوجوان سے میں نے پوچھا کہ نواب صاحب داراپور سے واپس جہلم شہر آ گئے تو اُس نوجوان نے بتایا کہ نواب صاحب تو تین چار دن سے اسلام آبادسے جہلم آئے ہی نہیں،آپ کو غلط اطلاع ہے کہ وہ داراپور ہیں،یہ بات سن کر اُس شخص کو انتخابات کو زمانہ یاد آ گیا ،وہ خوشگوار لمحے،اور سہانا مُوسم یاد آ گیا،کہتاہے میں اپنی پہلی اور آخری غلطی سمجھ کر توبہ کر لی کہ آج کے بعد میں ووٹ دیتے وقت ہزار بار سوچوں گا،خیریہ کہانی تو کسی کی زبانی تھی ، اس بات سے ہمیں کیا نواب صاحب عوامی بنے یا نہ بنے،ہم اُن کوایک لارا میرا مطلب ہے کہ وعدہ یاد کرواتے ہیں،وہ کہتے ہیں نہ کہ تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ ہمیں یاد ہے کچھ زرا زرا!
2008 کے انتخابات آئے تو مخصوص نشست پہ ایم این اے منتخب ہونے والی محترمہ نگہت میر صاحبہ نے ارسل ٹاؤن کی عوام سے ایک وعدہ کیایا لارا لگایا کہ آپ ہمیں یعنی ن لیگ کو ووٹ دیں تو سوئی گیس جیسا تحفہ میں آپ کو دوں گی، ارسل ٹاؤن کی بھولی عوام نے ن لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا، اور وعدہ وفا ہونے کا انتظار کرنے لگے،، لیکن محترمہ کو انتخابات کے بعدشاید یاد ہی نہیں رہا تھا کہ ارسل ٹاؤن ، جہلم کا حصّہ ہے، اور بیچارے علاقہ مکینوں نے اتنا انتظار کیا کہ 2013 کا الیکشن آگیا اور کمپین کے دوران محترمہ نگہت میر صاحبہ ،نوابزادہ اقبال مہدی کے ہمراہ ارسل ٹاؤن تشریف لے کر آئی، جب علاقہ مکینوں نے وعدہ’ ’یا‘‘لارا یاد کروایا تو محترمہ کو مکمل چْپ لگ گئی اور بات کو سہارا دیتے ہوئے نوابزادہ اقبال مہدی مرحوم نے آگے چلایا اور کہا کہ راجہ محمدافضل کے دونوں بیٹوں میں اتنی قابلیت ہی نہیں تھی کہ وہ کوئی کام کروا سکیں، اس دفعہ ہمارا یقین کریں ،ہم آپکو ضرور سوئی گیس جیسی سہولت سے نوازئیں گے،
بھولی عوام پھر لارے میں آ گئی اور پھر بھاری اکثریت سے ن لیگ ارسل ٹاؤن والا پولنگ جیتی،علاقہ مکین خوش سے بھنگڑے ڈالتے سوئی گیس کی آس اُمید لگائے اورمٹھائی کے ٹوکرے اُٹھائے جنجوعہ ہاؤس جہلم پہنچی ،لیکن نواب صاحب اسلام آباد تھے ،عوام بیچاری واپس آ گئی ،دو چار ماہ کاعرصہ گزراعلاقہ مکینوں نے دوبارہ جنجوعہ ہاؤس کا رُخ کر لیا،اُس وقت نواب صاحب اسلام آباد نہیں داراپور تھے،یہ سن کر تمام احباب اپنے اپنے گھروں کو چل دیے اور خاموشی سے اگلی بار ی کا انتظار کرنے لگ گئے،اللہ تعالیٰ کی رضا کہ نوابزادہ اقبال مہدی وفات پا گئے،ہماری دُعا ہے کہ مالک کائنات اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے،
اُن کی وفات کے بعد ضمنی انتخابات تو واجب تھااور اُن کا بڑا بیٹا مطلوب مہدی امیدوار بن گیا،ابھی انتخابات کی کمپین شروع نہیں ہوئی تھی کہ ارسل ٹاؤن کی عوام جلال میں آگئی اور سب سے پہلے محترمہ نگہت میر صاحبہ کو کال کی ،جب اُن کے گوش گزار کیا گیا کہ آپ نے 2008میں ارسل ٹاؤن والوں سے سوئی گیس کا وعدہ کیا تھا تو محترمہ نے ایک سوال کر ڈالا؟،،،،،محترمہ نے پوچھا کہ میں آپ کی ووٹوں سے ایم این اے منتخب ہوئی ہوں،اگر نہیں تو جو آپ کی ووٹوں سے منتخب ہوا ہے اُس سے رابطہ کریں،حیرانگی کے ساتھ محترمہ کو بتا یا گیا کہ وہ تو اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں ،تو محترمہ نے جواب دیا کہ چوہدری خادم صاحب سے رابطہ کرلیں،محترمہ کی شان میں دوبارہ گستاخی کر کے یہ اطلاع دی کہ جناب عالیہ !،،،ارسل ٹاؤن اُن کا حلقہ نہیں ہے،تو محترمہ نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا کہ پھر میں بھی کچھ نہیں کر سکتی.
علاقہ مکینوں نے سوچا کہ اب وقت ہے ،جہاں اتنا انتظار کیا ،وہاں ایک دو ماہ اور سہی،آخرپھر وہ وقت آ گیا ،اور ایک دفعہ پھر تمام باتوں کو بھول کر محترمہ نگہت میر صاحبہ نے ووٹ لینے ارسل ٹاؤن کی سرزمین پھر قدم مبارک رکھا،عوام نے پُر زور استقبال کیا،چوہدری اکرم صاحب (پوران) کے گھر بیٹھایا،جہاں علاقہ مکینوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی،بات چیت شروع ہوئی تو معروف کاروباری شخصیت محمد رحیم بٹ صاحب نے محترمہ کو 2008سے لے کر حالیہ فون تک ساری داستان سنائی،جب فون کال پر بات پہنچی تو محترمہ کے منہ سے بے ساختہ’’استغفراللہ‘‘کی آواز آئی اور کھڑی ہو کر ارشاد فرمانے لگی کہ یہ بھائی جو کہہ رہے ہیں ،اس میں ایک فیصد بھی صداقت نہیں ہے،محترمہ غصہ سے لال ہو گئیں،یونین کونسل کوٹلہ فقیر کے معززین نے انہیں ٹھنڈا کیا اورمعززین نے علاقہ مکینوں کو کہا ایسی بات نہیں ہوئی ہو گی ،آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے،اور محترمہ کوپانی پیش کیا گیا،اُس کے بعد تمام مجلس کے سامنے بتایا گیا کہ آپ کی ساری گفتگو کی ریکاڈنگ ہمارے پاس موجود ہے اور جس سے بات ہوئی تھی وہ آپ کے بالکل پیچھے بیٹھا ہے،پھر شاید محترمہ کے پاس کوئی جواب نہ بچا اور مان ہی گئیں کہ ہاں اس سے میری یہ بات ہوئی تھی اور مجھے خوشی ہے کہ اِس نے میرے الفاظ واپس دُھرائے،لیکن وعدہ یا لاراپھر وہاں کا وہاں ہی تھا اور اللہ کے نام پرووٹ کا سوال تھا،جس پر یونین کونسل کوٹلہ فقیر کے معززین نے بھی کہا کہ اس دفعہ ہم گارنٹی دیتے ہیں،علاقہ مکین ایک دفعہ پھر لارے میں لگ گئے اور پھرایک دفعہ پھر ن لیگ ارسل ٹاؤن کا پولنگ جیت گئی،اب اُس کے بعد کیاہوا،انتخابات گزر گئے ،ن لیگ کا امیدوار مطلوب مہدی قومی اسمبلی کا ممبر بن گیا،اب دیکھنا یہ تھا کہ اس بار ارسل ٹاؤن کی عوام سے کیا سلوک ہوتا ہے،ہونا کیا تھا،وہی معمول کی باتیں،نگہت میرصاحبہ ملنے سے قاصر تھی،کافی رابطے کے بعد بھی ملنے کا ٹائم نہ ملا، علاقہ مکینوں نے سوچا ووٹ تو مطلوب مہدی کو دیاہے، تو کیوں نہ وہاں فریاد لے کر چلیں،چند لوگ جنجوعہ ہاؤس پہنچے،مطلوب مہدی اسلام آباد تھے ،علاقہ مکینوں نے سوچا چھوٹے بھائی طالب مہدی سے مل لیتے ہیں ،لیکن شاید اُنہیں اندازہ نہیں تھا کہ بڑے میاں تو بڑے میاں ،چھوٹے میاں سبحان اللہ،،،،
خیر طالب مہدی گھر موجود نہیں تھے اور فون کال پر بات ہوئی ،جس پر طالب مہدی نے بات سن کر بڑے بھائی مطلوب مہدی کے علم میں یہ بات لانے کو کہا کہ ارسل ٹاؤن کے مکین اپنا مطالبہ لے کر آئے تھے،علاقہ مکینوں کو حوصلہ ہوا کہ چلو بات تو ہو گئی ہے نہ،دن گزرتے گئے ایم این اے صاحب کی طرف سے کوئی رابطہ نہ کیا گیا،پھر ایک دن ایسا ہوا کہ ایک رہائشی خوشی سے جھومتا ہوا علاقہ میں آیا ،لوگوں نے پوچھا ایسا کیا ہوا جو آج تمہاری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں، تو جواب میں منہ پر ہاتھ رکھ کر ،تھوڑا شرماکر،ہلکا سا مسکرا کربتایا کہ آج مجھے وہ ملے تھے،سننے والوں نے پریشانی اور حیرانی کے عالم میں پوچھا وہ کون؟،،،،تو اُس رہائشی نے بتایاکہ’’ طالب مہدی‘‘
سننے والے سارے حیران اورپریشان کہ یہ کیسے ممکن ہے؟،،،،وہ یہ بات ماننے کو تیار ہی نہ تھے،سب ہی یک زبان تھے کہ وہ اتنے بڑے نواب اور ایم این اے کے بھائی اور تم کہہ رہے ہو کہ میں اُن سے ملا ہوں ،کوئی ہونے والی بات کیا کرو،اتنے میں اُس شخص نے موقع پر بنائی ہوئی سیلفی دیکھائی،سیلفی کا منظر عام پر آنا تھا کہ لوگ اُس شخص کاہاتھ چومنے لگے اور پوچھا کہ سوئی گیس کی کوئی بات ہوئی تھی تو جواب میں پتہ چلا کہ وہ جلدی میں تھے ،گجر ہاؤس کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر گھر کو روانہ ہونے لگے تھے کہ میں نے گاڑی کادروازہ پکڑ لیا اور بتایا کہ ارسل ٹاؤن سے آیا ہوں ،،،،، سننے والے سوئی گیس کے بارے میں سننے کے لئے بے چین تھے اور بولے کام کی بات کی تو جواب میں پتہ چلا کہ طالب مہدی جلد ہی اپنے بھائی کے ہمراہ ارسل ٹاؤن تشریف لائیں گے،عوام میں ایک دفعہ پھر رررخوشی کا عالم چھا گیا،لیکن تا حال انتظار میں قید علاقہ مکین آج تک سوئی گیس اور نواب صاحب کی راہ میں اکھیاں بچھائے ہوئے ہیں،لیکن میں ایک دفعہ پھر صحافی اسد بخاری کی بات کو یاد کروا کر ارسل ٹاؤن کے مکینوں سے سوال کرو گا کہ ذمہ دار کون؟
ایم این اے یا عوام ،اگر ایم این اے ہے تو جواب مانگو اُس سے اور اگر عوام ہے تو جو عزت دے اُس کی عزت کرو بس ۔۔۔۔۔۔۔
یاد رہے کہ یہ وعدہ مطلوب مہدی نے نہیں کیا ،یہ وعدہ بڑے نواب صاحب (اقبال مہدی مرحوم ) نے کیا تھا ،مطلوب مہدی حلقہ میں آئیں گے تو کسی سے وعدہ کریں گے نہ،،،،،،،،،،،